تکثیری معاشرہ اور ہمارامطلوبہ رویہ- ۲

اتوار, مئی 05, 2013 عرفان وحید 0 Comments


مصنف: ڈاکٹر فضل الرّحمٰن فریدی
ترجمانی: عرفان وحید


اس امت کا یہ وصف بھی اتنا ہی اہم ہے کہ اس کا نصب العین ہے اللہ کا پیغا م انسا نیت تک پہنچا نا تا کہ وہ حق کو پہچان کر اسلا م کی حقا نیت اور اس کی آفا قی اقدار کو جا ن لیں ۔ قرآن امت کے اس نصب العین  کی تعریف درج ذیل آیت میں معین کرتا ہے:
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ
اور اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک "امت وسط" بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ البقرة: ۱۴۳
ایک پُر زور بیا ن میں قرآن حکیم اس امت کی بعثت اور تخلیق کا مقصد اسی منصب کو قرا ر دیتا ہے:
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو- آل عمران:۱۱۰
سوال ہے کہ ایسی امت اپنے نصب العین سے عہدہ بر آ ہو تے ہو ئے ایک تکثیری معا شرے کے تقا ضو ں کو کس طر ح پور ا کرے؟

اختیارِمسلم

دو سری قو مو ں کے بر عکس اس سوا ل کا جوا ب مسلما ن حا لا ت کے تجزیے کے مطابق اپنی دا نست سے پیش کر نے میں مکمل طور پر اختیارنہیں رکھتے۔ انہیں یہ آزادی حاصل نہیں کہ وہ ہوا کےکسی بھی رخ کے مطابق اپنی سمت متعین کر سکیں۔  البتہ ان کے پا س ایسی اقدا ر و معیارا ت ہیں جن کے حدو د قرآن و سنت نے طے کیے ہیں اور جن  کی مدد سے وہ حالات کے       تقا ضے سمجھ کر بد لی ہو ئی فضا کے مطابق فیصلہ کرسکتے ہیں ۔ دو سری اقو ا م ضرو ر اقدار اور معیا ر کی اضا فت (relativity) پر یقین رکھتی ہو ں گی لیکن امتِ مسلمہ ابدی اور اٹل اقدار پر ایما ن رکھتی ہے۔
کچھ قو مو ں کے نزدیک ما دی سو دو زیا ں اولین ترجیحا ت متعین کر تے ہیں اور وہ ان کی نو عیت و کمیت کے مطا بق اپنا لا ئحۂ عمل طے کر تی ہیں ۔ اس کے بر عکس اسلا می تنا ظر میں ما دی مفا د اگر چہ اہم ہے مگر یہ ثا نوی درجہ رکھتا ہے، اور متبا دل لا ئحہ عمل کے انتخاب میں یہ عنصر فیصلہ کن نہیں ہو تا ۔ متبا دل لا ئحہ عمل کو یہی ابدی اقدار اور اصول متعین کر تے ہیں۔
اس سوا ل کا اصو لی جوا ب قرآن و سنت کی طر ف رجوع ہے جو اسلا می زندگی کا سر چشمہ ہیں ۔ قرآن ایسے تما م حا لا ت       کا، بالخصوص جن کی نظیر نہیں ملتی، وا ضح اسلا می طریقہ کا ر پیش کر تا ہے ۔ فرما یا گیا ہے:

إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ
حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ الإسراء:۹
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا

اے لوگو جو ایمان لائے ہوئے، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے       صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔النساء: ۵۹

متبا دل رد عمل

 یہاں قرآن و سنت کی طرف رجو ع  کرنے سے پہلے تکثیری معا شرے کے چیلینج کے مختلف متبا دل ردِعمل (responses) کا جا ئزہ لینا ضرو ری معلو م ہو تا ہے۔

 مرکب تمدنی تشکیل

تکثیری معا شرے کا ایک عمو ما ً مقبول نظریہ ردِّعمل ایک مرکب تمدن کی تشکیل ہے۔ تعجب تو یہ ہے کہ اس نظریہ کی تائید بظاہرمتحارب  دوسیاسی گروہ کر تے ہیں۔
 سیکو لر حلقہ اپنی تا ئید کی بنیاد اس تصور پر تعمیر کر تا ہے کہ مذا ہب غیر عقلی اور نظری (dogmatic) ہو نے کے سبب تمام کثیر تمدنی سماجوں میں مز ا حمت پیدا کر نے کا رجحا ن رکھتے ہیں ۔ اس لیے مذہب کو مکمل طور پر ختم کر دیا جا ئے یا کم از کم سما جی زندگی سے اس کا تعلق تو ڑدیا جا ئے تا کہ نا م نہا د عقلی اصو لو ں کی بنیا د پر ایک مشترکہ تمدّن  کی تشکیل کی جا سکے ۔
لہذا تکثیری معا شرے کی تمام اکا ئیاں با ہم مل کر ایک مخلو ط تمدن کو تر قی دیں جس میں ہر چیز (معا شرے) کے اچھے سیکولر عناصر مو جو د ہوں۔ مذہبی تنوّ ع کے نتیجے میں پیدا ہونے والے متنا زعہ فیہ کی جگہ نئے سما جی رویے لیں گے اس طرح ایک سائنٹفک اور عقلی معا شرہ جذبا تی و نظری مسلک کی جگہ لے لے گا اور تنا زعہ سے آز ا د عقلی سو سا ئٹی کی تشکیل عمل میں آئے گی۔
مرکب سما ج کے اس سیکو لر شکل کی تردید میں اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک غلط منطق پر مبنی ہے اور پو ری طرح غیر       عملی ہے۔ یہ استدلال کہ مذہب مکمل طور پر غیر عقلی ہے دراصل انیسویں صدی کی متکبرا نہ مشینی سائنس کی با قیا ت کی دین ہے۔ عقلیت کو تجر بہ گا ہ میں ٹسٹ کر نے اور قا بل تصدیق بنا نے کی اس کی کو شش مدتو ں سے نا کا م رہی ہے اور متروک ہو چکی ہے۔
دوسر ا استدلال کہ مذہب فی نفسٖہ تنا زعہ پیدا کر تا ہے بعید از عقل ہے ۔ حقیقت تو یہ ہےکہ تمام بڑے تنا زعا ت کی جڑیں دراصل سیا سی عزائم اور معا شی استعمار میں پا ئی گئی ہیں ۔ بیسویں صدی ہما رےاس استدلال کی شا ہد ہے۔
ہندتوا کے مو یّد بھی ہندو ستا ن میں تنا زعہ سے آزا د معا شرے کا یہی راگ الاپتے آرہے ہیں۔ اس مرکب معاشرے کے جواز کے لیے وہ اس کےڈانڈے ہندوستا ن کی قدیم تا ریخ و تمدّن ملاتے ہیں۔ یہ حلقہ مخصو ص تمدنی روا یا ت کی مفروضہ برتری پر یقین رکھتا ہے اور اسے کو ئی فرق نہیں پڑتا خواہ تمام متنوع سما جو ں کو بہ جبر ایک تمدنی وحدت میں ٹھونس دیا جائے۔ ان کے نزدیک ملک کا ہندو کرن  ہی در اصل سنسکرتی کرن ہے۔
ہندو کرن کے مو یدین اپنے  اصل مقا صد کو چھپا نے کی بھی کوشش  نہیں کرتے۔ 1997میں رتھ یا ترا کے دو را ن  لال  کرشن ایڈوا نی نے بھوپال میں مسلما نو ں سے اپیل کی تھی کہ وہ’دو قو می نظریے’ کو آزا دی کی پچاسویں سا لگرہ کے موقع پر بھو ل جا ئیں اور ہندتوا سما ج میں ضم ہو جا ئیں۔
 ایک ایسے تکثیری سما ج میں جہا ں ایک مخصوص قو م کا غلبہ ہو یہ امر قدرتی ہے کہ مرکب تمدن پر اکثریتی گروہ کی تمدنی خصوصیا ت ہی غالب ہو ں گی۔ مختلف تمدنوں نے عنا صر کے انتخا ب میں اکثریت کو محض تعدا د کی بنا پر فیصلہ سا زی کے اس عمل میں امتیا ز حا صل ہو گا۔ اس عمل میں لا محالہ اقلیتی تمد ن کے عنا صر کا انتخاب اکثریت کے رحم و کرم پر منحصر ہو گا۔ جواقدار اور تمدنی اوصا ف مختلف تنا ظرا ت میں انتہائی اہمیت و تو جہ کی طا لب ہیں امکا ن ہے کہ مرکب تمدن میں انھیں وہی درجہ ملنا مشکل ہو گا۔ مثا ل کے طور پر مسلم معا شرے کی خاندانی اقدار اکثریت پر مبنی مذہبی تشکیل کے لیے ناگوا ر قرار دی جاتی ہیں اور سیکو لر حلقے کے نزدیک بھی یہ قا بلِ قبو ل نہیں ۔
معا شی اور تجا رتی معا ملا ت میں سود کا اسلا می تصور مذکو رہ با لا دو نو ں مرکب تمدنی تشکیلو ں کے نزدیک دقیا نو سی ہے۔ مرکب تمدن کی یہ دونوں صور تیں بہر حا ل ایک ہی نتیجہ پر منتج ہو تی ہیں۔ دو نو ں مسلم معاشرے کے اقدار و اخلا قیا ت کی نفی کر تے ہیں ۔ سیکو لر حلقے جہا ں سما جی رویے سے مذہب کا مکمل انخلا چا ہتے ہیں وہیں ہندتو ا کے حا می سنسکرتی کرن کے نا م پر اسلا می اور دیگرتہذیبو ں کو نگل لینے کے آرزو مند ہیں ۔
تجربہ شا ہد ہے کہ سیکو لر مرکب تمدن کا ہندو ستا نی ایڈیشن اکثریتی مذہب کے غلبے اور اس کے ثقا فتی رسوم و روا ج کو انتظامِ حکومت  میں نکیل ڈا لنے میں نا کا م رہا ہے۔ البتہ کٹر سیکو لر افرا د کے نزدیک یہ خامی در اصل بر سر اقتدار گروہ کی آئیڈیل کے حصول کے لیے غیر سنجیدگی اور جھجھک کی آئینہ دا ر ہے۔ اگرچہ وہ اس دعو ے کی تصدیق کے لیے کوئی بھی آئیڈیل پیش کر نے میں نا کا م ہیں ۔ اس کا سبب یہی ہے کہ ان کا دعویٰ غیر حقیقی اور غیر عقلی ہے۔
مزید برآں،مرکب تمدن کی تشکیل قوت کے استعما ل ہی سے ممکن ہے جو جمہو ری روا یا ت اور آزا دی کے لیے زہرناک ہے۔احتمال ہے کہ اس کے نتیجے میں  زیر زمین کشیدگی پنپے گی اور نتیجتاً  وقتاً فو قتا ً کھلے تنا زعے ہو ں گے۔ اگر بالفرض کھلی مخالفت کو بہ جبر کچھ عرصےکے لیے روکنے میں کا میا بی مل بھی جا ئے ، تب بھی  یہ کشیدگی افراد اور معا       شرو ں کے بیچ خفیہ درزوں میں لاوےکی طرح پکتی رہے گی۔سوویت یو نین اس کی نظیر ہے۔
 تمدنی احساسیات کو کچلنا معا شرے کی صحت مند ترقی کے لیےمضر  ثابت ہوا ہے۔ مغلوب گروہ سے امتیا زی سلوک روا رکھ کر غالب گر وہ ان کی توانائیوں کو فلا ح و بہبو د کے لیے استعمال کرنے سے محرو م ہو جاتا ہے۔ سوویت یونین کے سقوط کے بعد  ایشیائےوسطی کی ریا ستو ں اور روس کے درمیان چو نکا دینے والی عدم مسا وات روشنی میں آئی۔ انکشاف ہوا کہ اگرچہ جوہر ی توا نا ئی کے مرا کز ایشیائے وسطی ، جیسے قزاقستان،میں وا قع تھے مگر ان پر روسی فوجیوں کا قبضہ تھا۔ ان ریاستو ں کی معاشی تر قی  اورجدید سہو لیا ت وغیرہ کےتعلق سےامتیا زی رویہ رکھنا سرکا ری پالیسی میں شامل تھا۔ ہندوستان کی سیا سی انتظامیہ بھی، قرینوں کے مطا بق ، اسی طرح اقلیتو ں کی تمدنی اقدا رسے خطرے کےموہوم اندیشے (threat perception) کے سبب ایک صحت مند اور دا نا معا شرہ تشکیل دینے میں نا کا م رہی ہے۔
جمہو ری سیا سی و سما جی اقدار ایک ہم آہنگ معا شرے کی تشکیل میں تہذیبی جبر کی ضد ہیں ۔ ہندوستا ن اپنے تنو ع اوربوقلمونی پر نا ز کرتا ہے نہ کہ تہذیبی و تمدنی اقدار کے بہ جبر انضمام پر ۔ ایک عمومی غلط فہمی اور ہندتوا اور سیکو لر ٹو لوں کے پرو پیگنڈا کے بر عکس مختلف مذ ا ہب تعمیری کا وشو ں میں تعا ون اور تعا مل کی گنجا ئشوں سے گریزنہیں کرتے۔
اگر ہم انسا نی فلا ح و بہبو د ، انسا نی مصا ئب کے انسداد اور بھکمری اور غربت کے سد باب پر بلا تفریق مذہب و نسل غور کریں تو مذہبی فرقو ں کے درمیان تعاون کا ایک وسیع میدا ن ہے ۔ اس کی تمام مذا ہب میں پر زور وکا لت بھی کی گئی ہے۔ اس کے علاو ہ ،وطن سے محبت کر نا کسی ایک قوم کے لیے مخصو ص نہیں ہے۔
جیسا کہ عر ض کیا گیا ہے انفرا دی نو عیت کا یہ تعا مل ہندوؤں ، مسلما نو ں ، عیسا ئیو ں ، سکھوں اور پا رسیو ں کے درمیا ن ماضی میں بھی ہمیشہ سے رہا ہے اور، با وجود ہندتوا گروہ اور ایک چھو ٹے گمراہ کن طبقے کی زہر افشا نیو ں کے ،آج بھی ہے۔ فرقہ وا را نہ فسادا ت کی لہر میں اکثر ہندوؤں اور مسلما نو ں نے ایک دوسرے کی انسا نیت نواز مدد کی ہے۔ شہا دت ِبا بر ی کے افسو س نا ک واقعہ پر ہندو ؤں کے ایک و سیع طبقہ نے اس وحشیا نہ غا رت گری کے خلاف اظہار برأت کیا ۔ یہ مثبت شوا ہد اس با ت کے غّماض ہیں کہ متنوّ ع مذا ہب تعمیری تعا مل کی را ہ مسدود نہیں کر تے۔ معا شی و سیا سی میدا ن       میں بھی شمو لیت و تعا ون علیحدگی پسند رجحانا ت پر غا لب رہے ہیں۔
یہ حقیقت کہ مسلما نو ں نے عوا می سطح پر بھی اور علماء و خوا ص نے بھی تحریک آزا دی میں یکسا ں جو ش و خرو ش سے حصہ لیا،اس با ت کا وا ضح ثبو ت ہے کہ مذہبی تنوع تعا مل اور شمولیت کے لیے سنگ ِراہ نہیں ہے۔ تنازعات اگر کچھ ہیں تو وہ استثنا ہیں نہ کہ قاعدہ ۔تکثیری سما ج میں جب بھی کسی مخصوص اقلیتی مذہب کی قا بل قدر تعداد مو جو د ہو تی ہے،       مرکب تمدن کا ہندتوا اس کی راہ میں ہمیشہ ایک روڑا بنا ہے جو کشمکش اور تنا زعے کا باعث ہوا ۔
ہندو ستا نی مسلما ن ایک بڑی اقلیت کے نما ئندہ ہیں۔ محتا ط تخمینے سے بھی یہ تعدا د 10کر و ڑ  سے متجاوزہے۔ اپنے مذہب اور اقدا رکے ساتھ ان کی یگانگت بہت قوی اور ناقابل شکست ہے ۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ اقدار ان کے ذہنی سا نچے میں گہرائی سے ثبت ہو چکی ہیں اور عملی زندگی کا تانا با نا انہیں کے سا تھ بنُا گیا ہے۔ اس تمدن کو منہدم کرنے اور نام نہاد مرکب تمدن میں ضم کرنے کی ہر کوشش کی مزاحمت یہ قوم پوری قوّت سے کرے گی۔ اس کے تہذیب و تمدن کے لاینفک اجزا کو قائم رکھنے میں ناکامی ایک مستقل ناراضگی کا باعث بن جائے گی ، اور قومی کا وشو ں کے تعا ون میں مضر ثا بت ہو گی۔

بین قومی تعلقات میں متکافیت (reciprocity)

وجودِ باہمی کی ایک اور بنیاد عیسائی -مسلم تعلقات کے سیاق میں حالیہ برسوں میں کلیسا کی طرف سے  پیش کی گئی ہے۔یوروپی چرچوں کی کانفرنس کی ایک کمیٹی' یوروپ میں اسلام 'کے مطابق پیش کردہ ایک دستاویز کے مطابق عیسائی مسلم متکافیت کو تکثیری دنیا میں ایک متبادل رویے کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے۔ (انکاؤنٹر ۲:۱، ص ۷۰ تا ۷۵ )مغرب کے بعض دیگر حضرات نے عدم رواداری، نفرت اور عناد سے مسموم فضا والی اس دنیا میں عالمی اخلاقیات وضع کرنے کی وکالت کی ہے۔
اگر چہ ہندوستانی صورتِ حال سے یہ کلی طور سےمناسبت تو  نہیں  رکھتا تاہم اس سیاق میں اس تجویز کی افادیت کا تعین ضروری ہے کیونکہ سنگھ پریوارکے  چند حامی عناصر اسی قسم کے خیالات رکھتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کاہندو نقطہ نظرکو سماجی روایات میں اپنا نے سے انکارہی ہندو مسلم تعلقات کی راہ میں سب سے بڑا روڑا ہے۔ مسلمانوں کو ہندوتہواروں کی رسومات اپنانے اور بھارت کو سرزمین ِمقدّس ماننے سے ہچکچاہٹ ختم کرنی ہوگی۔
البتہ متکافیت ہندوستان میں تکثیریت  کی بنیادوں کے سلسلے میں خاص مقبول بحث نہیں ہے۔انسانی تعلقات میں متکافیت ایک خطرناک تجویز ہے۔ جیساکہ خرم مرادؒ نے لکھا ہے۔"خلوص  اور  گرم جوشی بین قومی تعلقات میں،ایک اخلاقی معاملہ ہے۔" وہ       کہتے ہیں : ـــــ’’متکافیت کو ایک بالکل ہی منفی طریقے سے بُرائی کے بدلے برائی کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اس صورت میں تو  یہ  دستاویز خود انجیل کی مخالفت اور تردید کررہی ہے۔" )خرم مرادؒ۔ عیسائی۔مسلم تعلقات میں متکافیت۔ چند تبصرے۔ انکاؤنٹر ۲:۲، ۱۹۹۶، ص ۱۹۹۹(
ہمارا منشا ایک پر امن اور خوش آئند وجود باہمی کی ایسی راہ تلاش کرنا ہے جس میں ہمارے مذہبی واخلاقی تشخص کی بھی حفاظت ہوسکے۔ متکافیت کو اگر عملی متبادل مان لیا جائے تو اس کا مطلب ہوگا قرآن و سنت کی پیش کردہ اقدار کو ترک کرنا یا کم ازکم ہنگامی صورتِ حالات کو مقدم رکھنا ہو گا۔ اس کے علاوہ جیسا کہ خرم مراد ؒ نے اشارہ کیا، یہ غیر اخلاقی بھی ہے اور اگر اسے فلسفیانہ متبادل مانا جائے جس میں دوسری تہذیبوں کے عناصر اپنانے اور اخذکرنے کی چھوٹ ہے تو یہ ملت کے اپنے تشخص کی نفی ہو گی ۔
اسی طر ح عا لمی اخلا قیات کو وضع کر نا ایک غیر عملی متبا دل ہے کیو نکہ یہ غیر وا ضح اور مبہم خیا ل ہے۔ ایسا کرنا مذہب اور اخلاقیات کو سیکو لرا ئز کر نے کے مترا دف ہے۔ اگر چہ تمام مذا ہب اخلا قی رویوں کی بنیا دو ں پر متفق ہیں وہ کئی جہات سے اخلا قیا ت کے تصور اور ان کے اطلا ق پر متفق نہیں ۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ مذہبی احکا ما ت کی نفی اخلا قی رویوں میں کرنا اسے محض نیک خوا ہشا ت کے اظہا ر تک محدود کر دیتا ہے۔
تفصیلی بحث کے لیے   دیکھیے: خرم مرادؒ: انکاؤنٹر ۲:۲ ، ۱۹۹۶ ۔ کرسٹوفر لیمب: متکافیت سے آگے، انکاؤنٹر ۳:۱، ۱۹۹۷۔ اور محمد طلبی: کیا تہذیبی و مذہبی متکافیت ممکن ہے؟، انکاؤنٹر ۱:۲، ۱۹۹۵۔
اس تجو یز میں مضمر خطرہ ہندوستا نی حالات و ظروف میں مزید نما یا ں ہو جا تا ہے۔ ہندو ستا ن کی زمینی حقیقت کا ایک پہلو یہ ہے کہ مسلم قو م تعا مل کے عمل میں ایک کمزور حصہ دا ر ہے۔ متکافیت  کا رویہ اس صور ت حا ل میں معمو لی لغزشوں کے لیے بھی غالب قو م کو ناقابل بیا ن سخت تعزیر کے لیے آمادہ کر سکتا ہے۔ مثبت صور ت میں بھی ، متکافیت کا نتیجہ، معمولی رعا یتو ں کے لیے کمزور قوم سے اس کی تمدنی خصو صیات کی قربا نی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اس طرح دو ایسے فریقو ں کے لیے جن کے درمیا ن قوت و صلا حیت کا کو ئی مقا بلہ نہ ہو،متکافیت ایک مستقل عنا د پیدا کر نے کی تجویز ہے۔

نظریہ حالتِ اصلی

تکثیری معا شرے کے چند مو یدین کا خیا ل ہے کہ معا شرے میں حالتِ سابق بدستور(status quo ante)  رکھنے وا لی صور ت ہو نی چاہیے جس میں تما م مذا ہب اور تہذیبوں کو ان کے حسب منشا حالت قا ئم رکھنے کی آزادی ہو ۔ موجو دہ تمدن اور اقدا ر میں امتیا زا ت کو بدلنے کی کو ئی کوشش قبو ل نہ کی جا ئے۔ ہر فرقے کو اپنی تمدنی روا یات پر قا ئم رہنے کی مکمل آزا دی حاصل ہو۔ہر ملت اپنی روا یا ت و اقدا ر کو نبھا تے ہو ئے قو می ترقی کی راہ میں انسا نیت اور خو ش حا ل معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں اپنا اپنا کر دار ادا کر ے۔ اس قسم کی کو شش نہ صرف سما ج کے رخنوںکو بند کر نے میں معاون ہو گی بلکہ اپنی ہمہ رنگی ،بوقلمونی اور خوبصور تی سے اسے مزیدتقویت بھی پہنچا ئے گی۔
البتہ حالتِ اصلی بر قرا ر رکھنے کا یہ نظریہ دو مفرو ضو ں پر مبنی ہے، جن کی اپنی حدیں ہیں۔ پہلا مفروضہ ہے کہ تنازعا ت سے بچنے کا یہی سب سے یقینی را ستہ ہے ۔ لیکن ضرو ری نہیں کہ تمام تبدیلیا ں سما جی طور پر نقصا ن دہ تنا زعا ت پر منتج ہو ں ۔ فہم و ادراک میں تبدیلی ،دلیل اور تحریک سے لا ئی جا سکتی ہے اور تمدن کے لیے مفید ہو سکتی ہے۔ دو سرے یہ کہ جمہوری آزادی حقِ اختلا ف کے تحفظ سے قوت اخذ کر تی ہے۔ حق ِاختلا ف ختم کر نا اس بنیا دی جمہو ری قدر کی نفی کر نا ہو گا۔ لیکن حق اختلاف رکھنا اس کا تحفظ کر نا اور حالت اصلی برقرار رکھنا یکسا ں نہیں ہیں ۔ دلیل اور عقل سے ادرا ک میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
علا وہ ازیں ، مسلم امت عدم تبدیلی (no change) کے نظریے یعنی ایک مستقل حالتِ اصلی کی تا ئید نہیں کر سکتی ۔ اس کے نزدیک یہ ما ننا کہ تمام ادیا ن اور مذا ہب اور سما جی اقدا ر و روا یات کا ہر مجمو عہ انسا نیت کے لیے یکسا ں طور پر مفید ہے ایک منطقی طور پر غلط مفرو ضہ ہے۔ یہ ما ننا کہ تمام را ستے ایک ہی منزل کی طرف لے جا تے ہیں فی نفسہ غلط اور منافقانہ مو قف ہے۔ اس کے علاوہ مختلف مذاہب کے ذریعے سجھا ئے گئے نصب العین نظریا تی طور پر ایک نہیں ہیں۔ فلاح وکا مرا نی کا سب کا اپنا اپنا نقطۂ نظر ہے۔ مزید یہ کہ نصب العین کے حصول کے لیے مذاہب و ادیا ن ایسی اقدار اور راہیں متعین کر تے ہیں جو باہم متنا قض ہیں۔
مثا ل کے طور پر شرک اسلا می تصور تو حید کی یکسر ضد ہے۔ مسا وا ت اور عا لم گیر بھا ئی چا رہ اسلا می نقطہ نظر میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جبکہ بعض دیگر مذا ہب سما ج کی بر تر اور کم تر طبقو ں میں درجہ بندی کر تا ہے۔

اسلا می نقطہ نظر

تکثیری معا شر ے کے چیلنج کا اسلا می نقطۂ نظر اس کے انسا نی معا شرے کے عمومی نقطہ نظر اور اختلا فی امور میں باہمی احترا م کے رو یے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اسلا م آزا دیٔ را ئے اور آزا دیٔ عمل کی وکالت اور احترا م کر تا ہے۔ فرد اللہ کے پیغا م کو قبول یا رد کر نے میں ،زند گی کو اپنے طر یقے سے گزا رنے میں آزا د ہے۔ اس طرح مذہبی اعتقادات میں اختلاف خا لق کا ئنا ت کے منصو بے کا حصہ ہے جس سے انسا نی دنیا کا ظہو ر ہوا ۔
لہٰذا دو سرو ں کو با لجبر اپنے نظریا ت بدلنے کی ہر کو شش اس منصو بے کی خلا ف و رزی ہے۔ اس رو سے کسی شخص کو اختیا ر نہیں کہ وہ اپنے نظریا ت کو دو سرو ں پر تھو پے، خوا ہ اسے مکمل طور پر یقین ہو کہ دو سرے غلط ہیں۔ اللہ نے انسا ن کو ذہانت اور عقل سے نوا زا ہے اور اس کی فطر ت میں مخصو ص حس و دیعت کی ہے ۔ جس سے وہ با طل کو حق سے اور جھو ٹ سے سچا ئی کو پہچا ن سکتا ہے۔
اس کے علا وہ اس نے رسو لو ں کو ہر دور اور خطۂ ارض میں بھیجا ۔ اگر انسا ن ان نشا نیو ں سے انکا ر کر تا ہے تو اس کے نتا ئج اس کو بھگتنا ہو ں گے۔ یہ ایک امتحا ن ہے جو اللہ کے منصو بہ کا حصہ ہے۔ لہذا اس امتحا ن کا تقا ضہ ہے کہ اس میں جبر نہ ہو ۔
قرآن نو ع انسا نی کی وحدت پر زور دیتا ہے اور ان کے نظریا تی اختلا فا ت کی نشا ندہی کر تا ہے۔
وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
اور (سب) لوگ (پہلے) ایک ہی اُمت (یعنی ایک ہی ملت پر) تھے۔ پھر جدا جدا ہوگئے۔ اور اگر ایک بات جو تمہارے پروردگار کی طرف سے پہلے ہوچکی ہے نہ ہوتی تو جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے ہیں ان میں فیصلہ کر دیا جاتا۔ یونس: ۱۹
یہ اختلا ف اللہ کی مر ضی سے اٹھے اور تب تک جا ری رہیں گے جب تک دنیا با قی رہے گی۔
وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً ۖ وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ۔ إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَ ۚ وَلِذَٰلِكَ خَلَقَهُمْ ۗ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے۔ہود: ۱۱۸-۱۱۹
کسی کو بھی حتٰی کہ رسو لو ں کو بھی یہ اختیا ر نہیں کہ وہ نظریا ت کے اس تنو ع کو با لجبر ختم کر دیں ۔ قرآن اس نکتہ پر بہت واضح ہے۔
وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكُوا ۗ وَمَا جَعَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ

اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو (وہ خود ایسا بندوبست کرسکتا تھا کہ) یہ لوگ شرک نہ کرتے تم کو ہم نے ان پر پاسبان مقرر نہیں کیا ہے اور نہ تم ان پر حوالہ دار ہو۔ الانعام: ۱۰۷

نبی نو عِ انسا ن کی آمائش کی ضرو ری شر ط ہے کہ فرد کو اپنے نظریا ت و اعتقا دا ت میں مکمل آزا دی ہو۔ اللہ نے انسا ن کو ایک خوب صور ت دنیا عطا کی ہے۔ اس کی تخلیق کا مشا ہد ہ کر نے کی صلا حیت بخشی ہے۔ قدرت پر اسے غلبہ عطاکیا ہے اور اسی کے سا تھ سا تھ قو تِ استدلا ل، عقل  اور وجدان عطا کیا  تا کہ وہ چیزو ں کی رمز کشائی کرسکے  اور مناسب  فیصلے لے سکے۔
اس کے علا وہ خدا نے انسا ن کی فطر ت میں بُرا ئی ، نا انصا فی اور با طل کے خلا ف ایک شعوری حس ودیعت کی اور خیر اور بھلی باتوں کے لیے فطری کشش رکھی ہے۔ البتہ اس نے نو عِ انسا نی کو دنیا کی خیرہ  کن  تاریک بھول بھلیو ں میں یو ں ہی اکیلا نہیں چھوڑدیا کہ وہ نظریات کے جنگل میں اپنی منزل  کی تلا ش میں بھٹکتا پھرے۔ اس مہر بان خدا نے انسا نو ں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اپنے رسو لو ں کو بھیجا ۔ایک بے قید اور منصفانہ آزما ئش کے لیے یہ ضرو ری تھا۔
إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا
جو چیز زمین پر ہے ہم نے اس کو زمین کے لئے آرائش بنایا ہے تاکہ لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں کون اچھے عمل کرنے والا ہے۔ کہف:۷
خالقِ اکبر کے   اس عظیم منصو بے کی توضیح  قرآن کی بیشتر آیا ت میں پیش کی گئی ہے اور ا س کے کئی   اہم مضمرات  ہیں۔ سب سے پہلا اور اہم ، یہ اس اصول کی پُر زور تا ئیدکرتا ہے کہ مذا ہب اور مسا لک میں تفا وت اللہ کی حکمت اور مر ضی کے تا بع ہے۔ پیغمبر اسلا م ﷺ کا مشن ہر گز یہ نہیں تھا کہ وہ متبا دل انتخا با ت میں سے چننے کا حق چھینتے یا اپنی بات  جبر،کپٹ اور دھو کے سے یاحیلہ بازی سے منوا تے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مشن کی وا رث اُمت مسلمہ اس تنو ع کے بہ جبر خا تمے کے با رے میں سو چ بھی نہیں سکتی۔
وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ
اور کہہ دو کہ (لوگو) یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔ کہف: ۲۹

آزا دی ٔمذہب کا احترا م

دو سرا یہ کے یہ آزا دی بے معنی ہو گی اگر اس کا حسبِ حا ل احترا م نہ کیا جا ئے۔ لہٰذا مسلما نو ں کو حکم ہے کہ اگر چہ انھیں اسے ختم کر نے کی قوت بھی حا صل ہوجائے وہ بہر حا ل اس کے تحفظ کی انتہا ئی کو شش کر یں ۔ قرآن مو منین کو مشرکین اور کا فرو ں کے معبو دو ں کی برا ئی کر نے اور بدگوئی سے احترازکر نے کا حکم دیتا ہے۔ ہندو ستا نی مسلم فرماںرواؤں کے ذریعے غیر مسلمین کی عبا دت گا ہو ں کی مبینہ بے حرمتی کے وا قعا ت قرآن کی اورپیغمبراسلا م ﷺکی سنت اورخلفائے راشدین و دیگر مسلم فرماں رواؤں  کےطرزِعمل اورتعلیما ت کے یکسر مغا ئر ہیں ۔
 البتہ اسلا م تکثیر ی معاشرے کا وا قعا تی حقیقت کے طور پر احترا م کر تا ہے نہ کہ حتمی آئیڈیل کے طور پر ۔ اس لیے کہ آئیڈیل کے تحفظ اور بقا کی کو شش کی جا تی ہے جبکہ  حقیقتِ واقعہ کا  اعتراف اور احترام کیا جا تا ہے۔
اسلا م تمام لو گو ں کو اپنے نقطہ ٔنظر سے اور ان کے مطا بق زندگی گزا رنے کی آزا د ی بخشتا ہے تا ہم اس بنا پر یہ کہنا درست نہیں کہ فی نفسہ یہ تما م نقطہ ہا ئے نظر اسلا م کے نزدیک یکسا ں طور پر صحیح ہیں۔ اسلام تبدیلی میں یقین رکھتا ہے۔ نوعِ انسانی کے اللہ کی جانب پلٹنے کی وکا لت و حمایت کرتا ہے۔ تلا ش ِحق کے سفر میں انسان نے جتنے با طل معبو د       گھڑ لیے ہیں ان سب کوتج دینے پر زور دیتا ہے۔
تبدیلی ا ورتشکیل ِجدید  کی  منطق کی بنیاددو اسبا ب پر ہے: پہلا قرآن کا یہ بیا ن کہ اللہ نے تمام انسانوں کی ہدا یت کے لیے اپنے رسو ل بھیجے۔ لیکن ان میں سے بعض گم گشتۂ  را ہ ہو گئے اور اصل پیغا م میں تحریف کر ڈالی۔ اللہ کی طرف لو ٹنے کی دعوت دراصل اس پیغا مِ اصلی  ک خالصیت کی طرف لو ٹنے کی دعوت ہے ۔ قرآن کے ماسوادنیا کی کوئی مذہبی کتاب یا صحیفہ خا لق ِاکبراور کا ئنا ت کے غیر محرف پیغا م حقیقی کا وا رث نہیں ہے۔ قرآن دیگر مذاہب کے اہم اجزا کی نفی نہیں کر       تا۔ لہذا قرآن نوع انسا نی کو اسی حقیقت کی طرف بلا نے کی ایک دعوت ہے جس کی طرف اللہ کے ہزاروں بلکہ لا کھو ں رسو لو ں اور پیغمبر و ں نے لو گو ں کو بلا یا ۔ قرآن در حقیقت دیگر آسما نی مذ اہب کے اہم عنا صر کا ردّیا ترک نہیں  بلکہ یہ ان کے حقیقی پیغا م کی تو ثیق اور اس حقیقی پیغا م کے محرف اجزا کی تصحیح ہے۔
یہی با ت ان مذ اہب اور دھر مو ں پر بھی صا دق آتی ہے جو آسما نی مذ اہب کےعا م  زمرے میں  دا خل نہیں ہیں مثلاً ہندو مت اور دیگر مذاہب ۔ ان کی ابتدا ء انتہا ئی قدیم دورمیں ہو ئی اور ان کے تاریخی شواہد معدوم ہیں ۔ تا ہم یہ مذا ہب بھی یکساںطورحتمی حقیقت  اور رو حا نیت کے حصول کے نما ئندہ ہیں۔ اس با ت کے پیش ِنظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ  مذاہب  بعض بر حق عناصرسے  متصف ہونے  کے با وجو د ابدی پیغام ِ حق سے دور ہو گئے ۔ اسلا م ان کو بھی دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنے نظریات کا معرو ضی جا ئزہ لیں اور اللہ کی حقیقت کی طرف لو ٹ آئیں۔
اس موقف کو قرآن کئی اہم آیتو ں میں بیا ن کرتا ہے۔ قرآن کہتاہے کہ اس کا پیغا م ابدی پیغا م کا تسلسل ہے۔
هَٰذَا نَذِيرٌ مِّنَ النُّذُرِ الْأُولَىٰ
یہ ایک تنبیہ ہے پہلے آئی ہوئی تنبیہات میں سے۔ النجم:۵۶
مزید ارشاد ہے کہ اللہ نے ہر قوم میں ہدا یت کے لیےاپنے پیام بربھیجے۔
إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ
تم تو محض خبردار کر دینے والے ہو، اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے۔الرعد:۷

قرآن وا ضح طور پر بیا ن کر تا ہے کہ لو گو ں نے رسو لو ں کے اس پیغا م کو جُھٹلایا اور تحریف کی۔
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۚ وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ۔ وَإِن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتَابِ الْمُنِيرِ
۔ہم نے تم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر اور کوئی امت ایسی نہیں گزری ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا ہو- اب اگر یہ لوگ تمہیں جھٹلاتے ہیں تو اِن سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھی جھٹلا چکے ہیں اُن کے پاس ان کے رسول کھلے دلائل اور صحیفے اور روشن ہدایات دینے والی کتاب لے کر آئے تھے۔فاطر: ۲۴-۲۵
ایک دوسرے سیا ق میں قرآن نے اہل کتا ب کے رویے کی وضا حت کی ہے کہ جب ان کے پاس اللہ کی طر ف سے ہدایت پہنچی تو انھو ں نے اس پس ِپشت ڈا ل دیا اور کتا ب کو یکسر رد کر دیا ۔ اگر چہ وہ ان کے پاس مو جود پہلی رہنما ئی کی تا ئید کرتی تھی ۔
وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا       يَعْلَمُونَ
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اس کتاب کی تصدیق و تائید کرتا ہوا آیا جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی، تو اِن اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو اس طرح پس پشت ڈالا، گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں۔ البقرة: ۱۰۱

قرآن نے اس رد کے پیچھے کار فرما ذہنیت کو بھی اجا گر کیا ہے۔ اور بتا یا  ہےکہ ما دّی مفاد اور دنیوی  نا م نمودکے لالچ میں ان لوگوں نے پیغا مِ حق میں تحریف کر ڈا لی۔ اس گمرا ہ کن کو شش میں مذہبی پیشو ا ؤ ں کا اہم کرداررہا کیو نکہ عوا م پر ان کا خا صا اثر و رسو خ رہتا ہے۔
اللہ کے ذریعے بھیجے گئے پیغا ما ت کے اس سلسلے میں بنیا دی مماثلت کیا تھی؟ اسلا م نو عِ انسا نی کو کس بنیا دی حقیقت کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتا ہے؟ قرآن ان سوا لات کے جوا ب کو پر دۂ اخفا میں نہیں رکھتا  بلکہ و ا ضح اور دو ٹو ک انداز میں بیا ن کر تا ہے۔ کہ زما ن و مکا ن کے تبدیلی کے با وجو د تمام انبیا ء کا پیغام ایک ہی تھا۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ
ہم نے تُم سے پہلے جو رسُول بھی بھیجا ہے اُس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔ الانبیأ- ۲۵
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ ۚ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ
ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اُس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ "اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو" اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلط ہو گئی پھر ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہو چکا ہے۔النحل: ۳۶

چنا نچہ قرآن و ا ضح اندا ز میں فر ما تا ہے کہ اسلا م اسی پرا نے پیغا م کی تجدید اوریاد دہانی ہے اور اس کو قبول کر نا در اصل حق ِاصلی کی خالصیت کی طرف پلٹنا ہے۔

وحدتِ ادیا ن ایک غلط نظریہ

تاہم اسلام کے اس موقف کو آج کل کے مروجہ نظریہ ٔوحدتِ ادیان سے خلط ملط  نہیں کرنا چاہیے جو ان لوگوں نے وضع کیا ہے جو مختلف مذاہب کے ما بین تفاوت  کا اعتراف نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نظریہ ایک شاطرانہ سعی ہے اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان امتیازات کو دھندلانے کی اور بالآخر تمام مذاہب کی تخفیف کرنے کی۔ اسلا م کا ہر گز یہ موقف نہیں ہے کہ تمام مذا ہب اپنی مو جو د ہ حالت میں مماثل و یکسا ں ہیں ۔ ان لو گو ں کا ما ننا ہے کہ محض رسو ما ت مختلف مذاہب کو ایک دوسرے سے ممتا ز کر تی ہیں ، اور حقیقت تمام مذا ہب یکسا ں اقدا ر اور یکسا ں مقا صد کے حصول پر زوردیتے ہیں۔
اس کے بر عکس اسلا م کا مو قف یہ ہے کہ تمام آسما نی مذا ہب اور غیر آسما نی دھرم در اصل ایک منبع سے ابھرے ہیں، لیکن وقت گزرنے کے سا تھ سا تھ تعلیما ت کو غلط عقاید،رسوم و رواج اور معاشرے کی اصل کے بجا ئے  کے سا تھ خلط ملط کر دیا گیا۔ آج ہمیں مذاہب کی تعلیمات کے بجا ئے اس کی مسخ شدہ شکل میں دستیا ب ہیں ۔ اسلا م ہی وہ وا حد مذہب ہے جس کی تعلیمات انسا نی ہا تھوں کی چیرہ دستیو ں سے محفو ظ، غیر محرف اور خالص صورت میں اپنی اصل شکل اور معنی میں موجود ہیں ۔ اسلا م کی یہی خصو صیت ہے  جواسے ایک بےنظیرمذہب کا درجہ دیتی ہے۔
چنا نچہ اسلا م کی اللہ کی طرف پلٹنے کی دعوت در اصل تمام مذا ہب کی مو جودہ حا لت کے لیے ایک تشکیل ِ جدید کا درجہ رکھتی ہے۔صرف اسی تشکیل ِ جدید کے ذریعے نو ع انسا نی  ربّ ِکا ئنا ت کے اصل پیغا م کوحا صل کر سکتی ہے  اور خود اپنے مذہب یا عقائد کے منصب کو پا سکتی ہے۔ یہی وہ تبدیلی ہے جو ہر مسلما ن کی رو ح کو توانا ئی بخشتی ہے۔
 اس امر کا دوسرا سبب کہ مسلما ن اپنی سو سا ئٹی کو کیو ں بدلنا چا ہتا ہے  اس کی نو عِ انسا ن سےگہری محبت اور اس کی فلاح کے لیے پر سوز تمنا ہے ۔ ا ن کا عقیدہ ہے کہ نو عِ انسانی کی فلا ح اِس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی صرف اللہ کی مکمل اطاعت میں مضمر ہے جو اور کچھ نہیں بلکہ اسلا م ہے۔
چونکہ تما م انسا ن آدم اور حوّا کی اولا د ہیں اور ایک ہی کنبے سے تعلق رکھتے ہیں، مسلما ن کا فریضہ یہ ہےکہ اپنے اہل کنبہ کو اس نقصا ن سے بچا ئے جو اللہ کے پیغا م کو ردکرنے اور اس کی نافرما نی کے نتیجے میں انھیں پہنچ سکتا ہے۔ لہذا اللہ نے دعوت الی اللہ کو مسلما ن کا عقیدۂ حیا ت اور مشن بنا دیا ہے۔ اس فریضے کی تکمیل میں نا کا می اللہ کی نا را ضگی کا       سبب ہو گی۔
 چنا نچہ اسلا می معاشرے کے لیے ایک دینی فریضہ ہے کہ وہ لو گو ں کے ما ئنڈ سیٹ کو بدلنے کی کو شش کر ے تا کہ وہ اللہ کی رضا کے مطا بق اپنی زندگی میں تبدیلی لا سکیں اور قرآن و سنت میں بتائے گئے اصولوں اور ہد ایات کے مطا بق اپنے مو جو دہ سماج کی تشکیل کر سکیں ۔ اس تلاش کا را ستہ عقل و استدلا ل، دعوت و یقین،  اور پر سو ز مکالمے میں پو شیدہ ہے۔
قرآن اس طریقہ کا ر کی وضا حت اس طرح کر تا ہے:
 ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے۔النحل: ۱۲۵
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا۔ وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا۔ اے نبیؐ، ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر - اللہ کی اجازت سے اُس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر۔الأحزاب: ۴۵-۴۶

یہ وا ضح ہوا کہ  ایک مسلما ن کی زند گی کا مشن اور مقصد تبدیلی ہے نہ کہ حیثیتِ عرفی کے سا تھ مصا لحت۔ لیکن تبدیلی کی تمنا کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسباب جو موجود ہیں ان کے ساتھ یا  لو گو ں کے سا تھ  جوتکثیری معا شرے کا جز ہیں  ،تنا زعہ پیدا کیا جا ئے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ معاشرے کےسا تھ مکمل دست برداری  اختیار کر لی جا ئے۔ یہ دو نو ں مو قف لو گو ں کےذہنوںاور دلو ں کی تبدیلی کے لیے منا سب نہیں ہیں۔ یہ مبنی بر غلط مو قف ہے کہ تبدیلی انسانی رشتوں کو قطع  کرکےیا دلیل کونظر اندازکر کے لا ئی جا سکتی ہے۔
(جاری ہے۔ )
اس سلسلہ کی  پہلی قسط  پڑھنے کے لیے یہاں  اور تیسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں