بچوں کے خلاف جرائم: ایک لمحۂ فکریہ
حضرت بلھے شاہ کا شہر قصور ان دنوں سرخیوں میں ہے۔ ایک ایسا دلخراش اور لرزادینے والا واقعہ پیش آیا ہے جس نے پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ہر صاحب ضمیر کو جھنجوڑ دیا اور سننے والے بلبلااٹھے کہ ’ایہہ بلھے شاہ دا شہر نئیں‘۔ ایک سات سالہ پھول سی بچی زینب امین جس کے والدین عمرہ کے لیے مکہ گئے ہوئے تھے اپنی خالہ کے گھر سے قرآن پڑھنے کے لیے گھر سے نکلی اورلوٹ کر نہیں آئی۔ پانچ دن کے بعد اس کی لاش اس کے گھر کے پیچھے کچرا کنڈی میں ملی۔ کسی نامعلوم درندے نے بچی کی عصمت دری کرکے اسے قتل کردیا تھا اور اس کی لاش کچرے میں پھینک دی تھی۔ یہ قصور میں ہونے والا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل 2017 میں قصور ہی میں ایمان فاطمہ، لائبہ، ثنا، اسما اور نور فاطمہ نامی بچیوں کا اغوا ہوا اور ان کی لاشیں شہر کے مختلف حصوں سے برآمد ہوئیں۔ سارا پاکستان اور سوشل میڈیازینب اور اس کے جیسی سیکڑوں معصوموں کے حق میں سراپا احتجاج ہے۔
بچوں پر ہونے والے جرائم میں وطن عزیز ہندوستان کی تصویر بھی انتہائی تشویش ناک ہے۔ پچھلے ماہ 9 دسمبر کی ایک شب قومی راجدھانی سے دو سو کلومیٹر دور واقع ہریانہ کے ضلع حصار کے قصبے اُکلانہ کا واقعہ ہے۔ ایک چھ سالہ بچی کو اس کے گھر سے اٹھالیا گیا اور آبروریزی کے بعد انتہائی بہیمانہ طریقےسے قتل کرکے گلی میں پھینک دیا گیاجس کی تفصیلات درج کرتے ہوئے ہاتھ لرزتے ہیں۔ اس کے والدین وہاں جھگی میں قریب دس بارہ سال سے رہتے آرہے تھے اور محنت مزدوری کرکے گزارا کرتے تھے۔ مذکورہ واقعہ کی رات بچی کا باپ مزدوری کے لیے گڑگاؤں گیا ہوا تھاجبکہ اس کی ماں بچی کے ساتھ سورہی تھی۔ آج بھی اپنی بیٹی کی دردناک موت کو یاد کرکے والدین روپڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی بچی نے آخر کسی کا کیا بگاڑا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا وحشیانہ سلوک کیا گیا۔ (انڈیا ٹوڈے، 10 جنوری، 2018)
ملک بھر سے بچوں پر ہونے والے جرائم کی خبروں میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے گھروں اور اسکولوں میں بھی بچے محفوظ نہیں ہیں۔ پچھلے سال گڑگاؤں کے ایک ہائی پروفائل اسکول ریان انٹرنیشنل کے باتھ روم سے سات سالہ پردیومن ٹھاکر کے قتل کا واقعہ ابھی لوگوں کی یادداشت میں تازہ ہے۔ جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے قومی بیورو این سی آر بی کی 2016 کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں بچوں کے خلاف جرائم میں 13 اعشاریہ 5 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ بہار میں یہ اضافہ 105 فیصد ہے، جبکہ بہار سرکار کا دعوی ہے کہ بچوں کے خلاف جرائم کےخلاف حکومت سرگرم اور عہد بستہ ہے اور اس سمت کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔
دیگر ریاستوں کی حالت بھی انتہائی تشویش ناک ہے۔ 2016 میں اترپردیش میں 16079 معاملات درج کیے گئے جبکہ مدھیہ پردیش میں 13746، مہاراشٹر میں 14559، دلی میں 8178، راجستھان میں 4034 اور چھتیس گڑھ میں بچوں پر جرائم کے 4746 معاملات درج کیے گئے ہیں۔ ملک بھر میں مجموعی طور پر 106958 معاملات درج کیے گئے ہیں جن میں بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کے 36022 معاملات ہیں اور ان میں 141 فیصد اضافہ دیکھا گیاہے۔(ایضاً، ص 19)
بچوں کے خلاف جرائم میں کم و بیش ہر ریاست میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ 2014 سے 2016 کے درمیان بیس فیصد کا اضافہ ہے۔ بچوں سے جنسی زیادتیوں کے واقعات میں بھی 82 فیصد اضافہ درج کیا گیا ہے۔سخت ترین قوانین کے باوجود ریاستی حکومتوں سے لے کر مرکزی حکومت تک ان جرائم کو روکنے میں ناکام نظر آتی ہے۔
ماہرین کے مطابق بچوں کے خلاف جرائم بڑھنے کی وجوہات میں غریبی، سرکاری بدعنوانی، اخلاقی قدروں کا دیوالیہ پن، انٹرنیٹ، موبائل فون اور اور ٹیلی وژن سرفہرست ہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون عام ہونے اور ان پر آسانی سے فحش مواد کی دستیابی بھی جرائم کی ایک بڑی وجہ ہے۔ بچوں کے حقوق کے ایک سرکردہ کارکن کیلاش ستیارتھی کہتے ہیں:
’’معاشرے میں دو نسلیں شدید نفسیاتی اور تہذیبی فشار کے دور سے گزر رہی ہیں۔ ایک طرف تو امتناعات پر مرکوز اخلاقیات ہیں تو دوسری طرف کھلے پن اور اباحیت کی دعوت۔ اگر بچوں اور بڑوں کو اخلاقی جنسی تعلیم سے محروم رکھا جائے گا تو قدرتی طور پر ان نفسیاتی عوارض میں اضافہ ہوگا۔ گاؤں گاؤں میں انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کے ذریعے فحاشی اور جنس زدگی کو مفت پروسا جارہاہے۔‘‘ (ایضاً، ص 20)
اگر یہ بات کوئی عام آدمی کہتا تو شاید اسے کسی بڑے میاں کی اخلاقی بڑ جان کر آسانی سے نظر انداز کردیا جاتا۔ لیکن یہ بات کیلاش ستیارتھی کہہ رہے ہیں جنھیں 2014 میں امن کا نوبیل انعام دیا چکا ہے، جن کا بچوں کے حقوق کی بازیابی نیز بچوں سے جڑے جرائم مافیا کو سمجھنے کا بیسیوں برسوں کا وسیع تجربہ ہے۔ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی ہلاکت خیزی محض نئی نسلوں کو برباد نہیں کررہی ہے بلکہ اس کا راست اثر بچوں سے جڑے جرائم سے ہے۔ یہی بات کیا کم تشویش ناک ہے کہ بچوں کے استعمال سے چلنے والی پورن ویب سائٹوں کا سالانہ عالمی دھندہ 100 ارب ڈالر سے متجاوز ہوچکا ہے۔
آخر اس کا حل کیا ہو؟ کیلاش ستیارتھی کے مطابق بچوں پر ہونے والے جرائم کی روک تھام ایک ہمہ گیر جدو جہد کی متقاضی ہے جس کے لیے مختلف محاذوں پر کام کرنا ہوگا۔ ایک کام تو مقامی و سماجی حالات کا لحاظ کرتے ہوئے مختلف عمر کے بچوں کو اپنے جسم کو محفوظ رکھنے کے حقوق سے متعلق تعلیم دینی ہوگی۔ تعلیم کے ذریعے جب وہ اپنے حقوق سے باخبر ہوں گے تو جنسی زیادتی کے علاوہ اور بھی مختلف قسم کی زیادتیوں سے خود کو بچاسکیں گے۔ دوسرا اہم کام یہ ہونا چاہیے کہ سماجی و مذہبی مقامات پر ان موضوعات پر اخلاقی تربیت کا نظام قائم ہو اور سنجیدہ گفتگوکا ماحول بنایا جائے۔ والدین اپنی بڑھتی عمر کے بچوں سے سلیقے سے حساس جنسی موضوعات پر بات کریں، ان کو اجنبیوں کے ساتھ ملنے کے خطروں سے باخبر کرائیں اور انھیں اخلاق باختہ مواد، انٹرنیٹ اور ٹیلی وژن کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے ٹکنالوجی کے مثبت استعمال کے لیے متحرک کریں ساتھ ہی انھیں تخلیقی اور بارآور کاموں کی رغبت دلائیں۔ انھیں خالی نہ بیٹھنے دیں اور ان کے دوستوں اور ملنے جلنے والوں پر بھی کڑی نظر رکھیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ پولیس اور پیشہ ورانہ قانونی ماہرین کو بچوں کے خلاف جرائم کے تئیں حساس بنایا جائے اور ان کی پیشہ ورانہ تربیت کی جائے۔ ستیارتھی ہر ضلع میں خصوصی عدالتوں نیز مختلف سطح کی کمیٹیوں اور کمیشن کے قیام کے حق میں ہیں اور خواتین کمیشن کی طرز پر حقوق اطفال کے لیے ایک قومی اتھارٹی کے قیام کی بھی وکالت کرتے ہیں۔
قانون بچوں کے خلاف جرائم کو سنگین ترین جرائم تصور کرتا ہے۔ اسلام قصاص کو قوموں کے لیے حیات قرار دیتا ہے۔ تاہم قانون کو اپنا کام کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ عام شہریوں کو رپورٹ درج کرانے سے لے کر مختلف ضوابط اور قوانین کی بنیادی معلومات ہوں۔ ساتھ ہی عام لوگوں کو بھی قانون کی مدد کے لیے جرأت مندی اور حوصلے سے، مصحتوں کو بالائے طاق رکھ کر آگے آنا ہوگا اور بچوں پر ہونے والے جرائم اور زیادتی کی رپورٹ کرنی ہوگی۔
جرائم کے ریکارڈ بولتے ہیں کہ روزانہ کتنی ہی زینب وحشی درندوں کی ہوس کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ انسانیت کا پست ترین مقام ہے۔ زینب کا مجرم اب بھی قانون کی گرفت میں نہیں آسکا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسے بھرے پرے بازار سے اغوا کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ عام لوگ مجرم کو پکڑنے میں آگے نہیں آتے ہیں۔ اس صورت حال پر ایک عبر ت انگیز واقعہ پیش کرتا ہوں جسے فیس بک پر نعیم اکرام نے نقل کیا ہے۔ اگرچہ یہ موضوع سے راست متعلق نہیں ہے تاہم ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ ضرور کرتا ہے۔
چین میں بغاوت کامیاب ہونے کے بعد ماؤزے تنگ نے زمام اقتدار سنبھالی اور کہنہ روایات اور شاہی قوانین کے ملبے پر نئے نظام کی بنیاد رکھی۔ نئے قواعد و ضوابط کو کسی بھی نوع کی مصلحت سے آزاد قرار پائے۔ اگرچہ جرم اور مجرم کو آسمان تلے کوئی پناہ گاہ یا سہولت کار دکھائی نہ دیتا تھا مگر اس کے باوجود شر کو نکاسی کی کوئی نہ کوئی راہ مل ہی جاتی تھی۔
ایک دفعہ بیجنگ شہر کے ایک محلے میں ایک نو عمر لڑکی سے زنا بالجبر کا واقعہ پیش آیا اور مجرم روپوش ہو گیا۔ ماؤ تک خبر پہنچی۔ وہ خود متاثرہ لڑکی سے ملا اور اس سے پوچھا: ’’جب تم سے زیادتی کی گئی تو کیا تم مدد کے لیے چلائی تھیں ؟‘‘
لڑکی نے اثبات میں سر ہلایا۔
ماؤ نے اس کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور نرمی سے کہا: ’’میری بچی! کیا تم اسی قوت کے ساتھ دوبارہ چلا سکتی ہو ؟‘‘
لڑکی نے کہا : ’’ہاں‘‘
ماؤ کے حکم پر گارڈ کے کچھ اہل کار نصف کلومیٹر کے دائرے میں کھڑے کر دیے گئے۔ اس کے بعد لڑکی سے کہا گیا کہ : ’’پوری قوت کے ساتھ چیخو!‘‘
لڑکی نے ایسا ہی کیا۔ ماؤ نے تمام اہل کاروں کو بلایا اور ہر ایک سے پوچھا گیا کہ لڑکی کی چیخ سنائی دی یا نہیں؟
سب نے اثبات میں جواب دیا۔
ماؤ نے اگلا حکم صادر کیا کہ نصف مربع کلومیٹر کے اس علاقے کے تمام مردوں کو گرفتار کر لیا جائے اور آدھے گھنٹے کے اندر اگر مجرم کی درست نشاندہی نہ ہو سکے تو تمام گرفتار مردوں کو گولی سے اڑا دیا جائے۔
حکم کی فوری تعمیل ہوئی اور دی گئی مہلت کو ابھی بمشکل دس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ مجرم کی نشاندہی ہوگئی اور اگلے بیس منٹ کے اندر اندر مجرم کو پکڑ کر ماؤ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ لڑکی نے شناخت کی۔ موقع پر فیصلہ ہوا اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے میں دیر نہیں کی گئی۔
کاش آج اگر قانون نافذ کرنے والے اسی سرعت سے کام کرتے، اور عام لوگ مصلحت اندیشی کی بنا پر مجرموں کی پشت پناہی نہ کرتے تو قصور کی معصوم زینب کو یہ روز سیاہ نہ دیکھنا پڑتا جس کے بعد اس کی آنکھیں ہی نہ کھل سکیں۔
(بشکریہ حجاب اسلامی، نئی دہلی، شمارہ فروری 2018)
(بشکریہ حجاب اسلامی، نئی دہلی، شمارہ فروری 2018)