تکثیری معاشرہ اور ہمارا مطلوبہ رویہ -۳

جمعہ, جولائی 05, 2013 عرفان وحید 0 Comments

مصنف: ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی
ترجمانی: عرفان وحید
جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا ، تکثیری معاشرے ہمارے اپنے عمل دخل سے نہیں یہ بلکہ جدید زمانے کی چند ناگزیر صورتِ حالات کی دین ہیں۔ ساری دنیا کے مسلم معاشرے تبدیلی کے موافق نقطہ نظر  کے باوجود تنہا اپنے معاشروں کی بازتشکیل نہیں کرسکتے۔ دنیا کے اکثر حصوں میں وہ اقلیت میں ہیں اور اسی حیثیت میں رہتے ہوئے انہیں متنوع مذاہب اور مختلف تہذیبوں سے وابستہ افراد کے ساتھ تعامل کرنا ہے تاکہ اپنے ہم وطن و ہم سایہ عوام کی زندگیاں بہتر بنانے کی جدو جہد میں شریک ہوسکیں۔


اس مخصوص نوعیت کے ساتھ اپنی اقدار کو بر قرار رکھتے ہوئے مذکورہ سوال کا جواب دینے کے لیے انہیں قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنا ہوگا، کیونکہ اقدار کے یہی دو ایسے سر چشمے ہیں جو ابدی ہیں اور امت کو ہر زمانے اور صورتِ حال کے لیے رہنمائی اور ہدایت فراہم کرتے ہیں۔ ہدایت کے یہ سر چشمے زمان و مکان کی قیود اور معا شرتی سیاق سباق کی بندشوں سے آزاد ہیں۔ قرآن و سنت کی یہی ابدی حیثیت امت کے لیے تمام انسانی رویوں اور معا ملات کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اسلامی معاشرتی ہدایات کی لچک کا اعتراف فقہا نے ہمیشہ کیا ہے اور قرآن وسنت کے فہم وتفقہ میں اس لچک کو خوب استعمال کیا ہے۔

اسی فہم کی بدولت پوری اسلامی تاریخ میں ’استدلال‘ اور’ سماجی سیاق و سباق‘ کو فقہی تقدم حاصل رہاہے۔ فقہِ اسلامی کی تدوین میں فقہا نے اپنی بے نظیر کو ششوں سے یہ پیغام دیا کہ ان کی یہ کاوشیں بشری ہونے کے سبب امتدادِ زمانہ کی شکست و ریخت سے محفوظ نہیں ہیں۔ اس پیغام کے شواہد ان کاوشوں کی تصدیق کرتے ہیں اس لیے نا قابلِ تر دید ہیں۔ فقہا نے قرآن و سنت کے علاوہ عرف، مصالح مرسلہ اور استحسان کو قانونِ اسلامی کے اضافی مآخذ کے طور پر قبول کیا بشرطیکہ قرآن و سنت کے ساتھ یہ باہم متناقض و متصام نہ ہوں۔ یہ درست ہے کہ فقہ اسلامی کے مختلف مکاتب ان مآخذ کی ترجیحات متعین کرنے میں مختلف الرائے ہیں، لیکن وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ مذہبی احکامات کی نوعیت معاشرے کی تبدیلی اور فرد کی بدلی ہوئی صورتِ حال میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

اس مؤقف کو فقہ کے ایک عام اور معروف کلیہ میں اس طرح کہا گیا ہے:’’ مذہبی احکامات سیاق و سباق کی تبدیلی کے مطابق نافذالعمل ہیں‘‘ــ۔

اس کی سند فقہا کی مقاصدِ شریعت کی تشریح میں بھی ملتی ہے جو دفعِ ضرر اورجلبِ منفعت کے دوہرے مقصد کو فقہ اسلامی کے بنیادی اصول کے طور پر شناخت کرتی ہے۔ اسی طرح کے متعددشواہد اس بات کا ناقابلِ تر دید ثبوت ہیں کہ اگر چہ قرآن و سنت ابدی ہیں،لیکن ان کا فہم زمانی ہے لہٰذا مماثل صورت ِحا ل پر منطبق کیاجاسکتا ہے۔

سماجی صورت حال میں تفاوت

جدید سماجی سیاق میں چند ایسی بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں جو پچھلے زمانے میں پیش بینی سے ماورا تھیں۔ فقہاء اسلام اپنی دور رس نظر کے باوجو ان کا تصور نہیں کرسکتے تھے۔

ان میں سب سے اہم تو وہ تبدیلیاں ہیں جوتکثیری معاشرے کے عا لمگیر پھیلاؤ سے رو نما ہوئیں۔ یک تمدنی معاشرے اب شاذو نادرہی کہیں ہیں۔ مسلمانوں کو آج انہیں تکثیری معاشروںسے سابقہ درپیش ہے۔ ان میں سے اکثر معاشروں( مثلاً یوروپ، امریکہ، آسٹریلیا، چین وغیرہ) میںحالات پر ان کا عمل دخل نہیں کے برابر ہے کیونکہ سوائے کچھ پرانے تکثیری معاشروں ( مثلاً ہندوستان)کے ان معاشروں کے ابھرنے کااہم ترین سبب معاشی و اقتصادی ترقی ہے۔آج مسلمانوں کا دیگر اقوام سے تعامل کم و بیش تمام معاشی سرگرمیوں میں ہو رہا ہے۔ ان معاشروں میں ان کی بودوباش کے اغراض و مقاصد کے ادراک میں معاشی تعامل بھی ایک اہم عنصر ہے۔

معاشرتی تعامل گو رسمی سطحوں پر محدود سہی ، تاہم یہ نئے ابھرتے تکثیری معا شروں میں معاشی تعامل کی پیداوار ہے۔ البتہ پرانے معاشروں میں سماجی اور تمدنی تعامل کہیں زیادہ وسیع تھا جس کے اثرات رسوم رواج، زبا ن وادب، فنونِ لطیفہ اور فنِ تعمیر پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ سماجی تعامل دونوں طرف اثر انداز ہوا ہے ۔ دونوں نے ایک دوسرے کی تمدنی خصو صیات مستعار لیں ہیںاور اس طرح معاشرتی شیرازہ بندی کو مضبوط کیا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اس سے باہمی عناد کی فضا بھی پیدا ہوئی ہے۔ معاشروں میں مختلف نصب العین رکھنے والی قوتیں اسی طرح کام کرتی ہیں۔

ان معاشروں کا ایک کلیدی پہلو یہ ہے کہ مسلم اور غیر مسلم ایک ساتھ رہتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ خرید و فروخت کرتے ہیں ،اور ایک ہی سماجی و معا شی نظام میں ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔

جیسا کہ اس سے قبل اشارہ کیا گیا کہ گلو بلائزیشن اس سلسلے کی اہم تبدیلی ہے۔ اطلاعاتی ٹکنا لوجی نے فرد کی زندگی کے ہر پہلو کو قابلِ رسائی بنا دیا ہے۔ مسلمانوں کے رہن سہن، ان کی گفتگو، ان کی اصطلاحات، ان کا فلسفۂ زندگی، ان کے اہداف اور عزائم اب انہیں کے حلقوں تک محدود نہیں رہ گئے بلکہ یہ دوسروں کی رسائی میں ہیں اورد یگر اقوام کے گہرے مشاہدے کے لیے کھلے ہیں۔ اس سے دوسروں کے احساسات پر بھی اثر پڑ رہا ہے اور یہ بھی باہری اثرات قبول کر رہے ہیں۔

ایک اور اہم تبدیلی جو جدید تکثیری معاشرے میں آئی ہے اور جس کا گمان ماضی کے فقہا نہیں کرسکتے تھے وہ یہ ہے کہ مختلف قومیں قانوناً  نہ سہی لیکن عملی طور پر اپنے علاقے کی زمینوں کے عمومی انتظام میں شریک کارہوتے ہیں۔ ریاستی معاملات میں تکثیری معاشرے کی مختلف اکائیاں ابتلاو آز مائش میں برابر شریک ہوتی ہیں۔ ریاستی نظام میں اس طرح کی عمومی شرکت ماضی میں شاذہی قابلِ تصور تھی۔ دنیا کے بیشتر حصوں میں نظام جمہوریہ کا ظہور بھی مختلف قوتوں کے باہم شریک ہونے میں معاون ہوا ہے۔ اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں کہ باہمی شرکت کے ارتقا میں ثقافتی اور مذہبی تعصبا ت وامتیازات مزاحم ہوئے ہیں لیکن شرکت کا رجحان اتنا قوی ہے کہ اسے روکا نہیں جاسکتا۔

کچھ اور اہم تبدیلیاں جن پریہاں توجہ مقصود ہے ان کا جائزہ قدیم فقہا سے چلے آرہے غیر مسلموں اورامت کے بدلے ہوئے کردار کے تنا ظر میں دیکھا جائے گا۔

عالمی معاشرے پر قدیم فقہا کا موقف

فقہا نے دنیا کو تین قسم کے معاشروں میں تقسیم کیا جو ایک دوسرے سے یکسر ممتاز ہیں۔ انہوں نے دنیا کو دار الا سلام، دار الکفر(یا دار الحرب) اور دارالاحدکے خانوںمیںبانٹ دیا۔ یہ درجہ بندی سیاسی غلبے یا ملک میں اسلامی قانون کی بالا دستی کی بنیاد پر تھی۔دار الا سلام وہ معاشرہ ہے جس میں قانون ِاسلامی انفرادی، روحانی اور اخلاقی رویے کے علاوہ تمام سیاسی، سماجی اور معاشی معاملات میں غالب و حاکم ہوتا ہے۔دار الکفریا دار الحرب وہ معاشرہ ہے جہاں غیر اسلامی قانون غالب ہوتاہے۔ اس معاشرے کی دیگر تعریف یہ کی گئی ہے کہ اس کے ساتھ دارالاسلام مستقل آویزش کی حالت میں رہتا ہے۔ دارالاحد وہ علاقہ یا معاشرہ ہے جس کے ساتھ اسلامی ملک کا معا ہدۂ امن قائم ہوتا ہے۔

اس درجہ بندی کے بعد امت ِمسلمہ کی موجودہ صورت ِحال کے تعلق سے کئی پریشان کن سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ کیا یہ فقہی درجہ بندی قرآن و سنت کیاابدی اصولوں پر مبنی ہے؟یاکیا یہ صرف سیاسی مضمرات کی حامل ہے؟

اس درجہ بندی کو مقبولیت عہدِ عباسی میں حاصل ہوئی۔ اسلا می فقہ کے اس ا ہم دور سے قبل ان اصطلاحات کا استعمال قانونی مفہوم میںشاذہی کبھی ہوا ہوگا۔ یہ حقیقت کہ یہ اصطلاحات ایک اختراع ہیں، گوکہ اس کے مویدین دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں قرآن و سنت کے اصولوں سے ہی اخذ کیا گیا ہے، اس بات سے عیاں ہے کہ ان اصطلاحات کی تعریف اور آراء کے تعلق سے بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ اگر چہ اسلامی سلطنت کا ’اظہار‘ (بالادستی) اس تعریف کی اصل بنیاد ہے، لیکن اظہار کی تشریح بھی کئی طریقوں سے کی گئی ہے ۔ امام ابو حنیفہؒ نے دارالاسلام کو دار الحرب قرار دینے کے لیے تین شرطیں رکھی ہیں: غیر اسلامی حکومتوں کی بالا دستی، دار الحرب سے ملتی ہوئیں سرحدیں اور مسلمانوں اور ما قبل ذمیوں کی عدم موجودگی(۱) ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اسلام کے چند احکامات قائم رکھے جائیں ماقبل کا دارالاسلام ،دارالاسلام ہی رہے گا۔ کچھ احناف یہ بھی مانتے ہیں کہ جب تک مسلمانوں کو تحفظ حاصل ہے اور غیر مسلموں سے انہیں تحفظ نہ مانگنا پڑے تو وہ ملک جو ماقبل مسلمانوں کے زیرِ اقتدار تھا دار لاسلا م ہی رہتا ہے۔

دیگر فقہی اسکولوں کے نزدیک یہ تینوں شرطیں لازمی طور پر لاگو نہیں ہوتیں۔ اظہار حکومتِ اسلامیہ کی بلا شرکت غیرے بالا دستی کا نام ہے اور اگر حکومتِ اسلامیہ کسی اور کے زیر ِنگیں آجائے تودارا لا سلام دارا لکفر میں بدل جاتا ہے۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جب سیاسی حالات بدلے اورچھٹی سے بارہویں صدی ہجری کے درمیان دنیا کا بیشتر حصہ اسلام کے زیرِنگیں ہو گیا تو بعد کے فقہا کو اپنا موقف بدلنا پڑا اورایک معروف فقیہ علی بن محمد الا سجابی ( متوفی۵۳۵ھ/ ۱۱۴۱ئ) نے فتویٰ دیا کہ اگرچہ کسی علاقے پر کفار کی فرماں روائی ہے لیکن جب تک اسلامی شعائر مثلاً اذان، نماز جمعہ اور عیدین وغیرہ پر پابندی نہیں تووہ علاقہ دار الاسلام ہی رہے گا (۲)۔

اورا ء النہر کے ایک اہم فقیہ الاسترشنی نے الا سجابی کی تائید میں متعدد آراء نقل کی ہیں کہ جب تک اسلام کے تمام احکا مات منسوخ نہ کر دیے جائیں اور ان کی جگہ غیر اسلامی احکامات نہ لے لیں ایک علاقہ دارا لاسلام رہے گا (۳)۔ اسلامی سلطنت پر منگولوں کی یورش نے مسلم فقہا کے سامنے ایک عجیب و غریب صورتِ حال کھڑی کردی تھی۔ موجودہ سیاق میں بھی اسی طرح کا مسئلہ در پیش ہے۔ شیخ ابوزہرہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگر ہم اکثریتی قدیم موقف پر قائم رہیں تو تمام عالم ِاسلام کو دارا لکفر ماننا پڑے گا کیونکہ اسلامی قانون اب نافذ نہیں ہے۔ اس لیے وہ امام ابو حنیفہؒ کے نظر یے کے قائل ہیں اور تمام مسلم اکثریت والے ممالک کو دارالا سلام تصور کرتے ہیں(۴)۔

دار الاسلام اور دارا لکفرکی تعریفوں میں یہ الجھن اس بات کی غماز ہے کہ یہ درجہ بندی عہدِ اسلام کے آغاز کی چند صدیوں کی سیاسی صورتِ حال کے تقا ضوں پر مبنی تھی۔

مسلم فقہا نے اس تاریخی حقیقت سے بھی صرفِ نظر کیا کہ قرونِ اولیٰ کے بہت سے مسلمان قبائل نے غیر اسلامی زمینوں میں ہی بودو باش کو ترجیح دی۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ عہدِ اولیٰ کے ایسے دس مسلم معاشروں کا ذکر کرتے ہیں جن میں بعض دور ازکار علاقوں مثلاً نوبیا، مالا بار، سندھ، ہندوستان، چین وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے(۵)۔

مسلم معاشروں کا اس طرح غیر مسلم علاقوں میں نقلِ مکانی کا فیصلہ جمہور فقہا کی اس اکثریت رائے کے مغائر ہے جس کے مطابق دار الاسلام سے دار الکفر کی طرف ہجرت ممنوع ہے (۶)۔


موجودہ زمانے میں، مسلمانوں کا مسلم اکثریت کے ممالک سے غیر اسلامی ممالک کی طرف نقلِ مکانی کرنا ایک عام بات ہے۔ بعض فقہا کے نزذیک ’تحفظ‘ اور اسلامی شعائر پر عمل کرنے کی آزادی کسی علاقے کو دارالاسلام قرار دینے کے لیے کم سے کم شرطیں ہیں۔

یہ اصول موجودہ غیر اسلامی ممالک کے مساوی حقوقِ انسانی کے تناظر میں کس طرح مطابقت رکھتا ہے؟

حقوقِ انسانی اور شہری آزادی و انصاف نیز مسلم اور غیر مسلم ممالک (یعنی دار الکفر) کے عوام کی شرکت اور سیاسی تنظیم و تقسیم کا تقابلی مطالعہ چشم کشا بھی ہے اور پریشان کن بھی۔ سعودی عرب جو اپنی اسلامیت کے لمبے چوڑے دعوے کرتاہے اس میں بھی عوام کی جمہوری شرکت یکسر غائب ہے ،جہاں شہری آزادی پر پابندیاں ہیں اور معاشی معاملات کی بنیادسود پرہے۔ مصر جو بلحاظ آبادی مسلم ملک ہے، وہاں پرُخلوص مذہبی وابستگی کو بنیاد پرستی سے عبارت کیا جاتا ہے، جہاں جمہوریت کے مصنوعی دکھاوے ہیں اور حقوقِ انسانی، مساوات اور عدل گستری عنقا ہے۔ اور جہاں مذہب کو نام نہاد ’قومی‘ مفاد پر قربان کیا جاتا ہے۔ جدیدترکی جس کا معمار مغربی افکار کا دلدادہ اور سیکولر کمال اتاترک تھا، اس میں بھی وردی کے استبداد کا ہولناک سلسلہ جاری ہے۔ مغربی طاقتوں کی شہ پر الجزائر اور ترکی میں جمہوری آزادی کے مطالبوں کو فوجی وردی میں ملبوس حماقت کچل رہی ہے۔ انڈونیشیا میں سہارتو بھی مذہبی و جمہوری اقدار کو پامال کر رہا ہے۔

مسلم ممالک کی اس مایوس کن صورتِ حال کا موازنہ مذکورہ درجہ بندی کے دار الکفر امریکہ، برطانیہ اورہندوستان سے کیجیے جہاں مذہبی آزادی، حقوق ِانسانی، شہری آزادی ،مساوات وعدلـ وہ تمام اہم اقدار جو اسلامی نظامِ حکومت کا سرمایہ ناز ہیں ــ کہیںزیادہ بہتر شکل میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کو حاصل ہیں۔

کیا شریعت کی نظر میں یہ حقائق یکسرناقابلِ اعتناہیں؟کیا اس فقہی درجہ بندی میںاس ٹھوس فرق کو شمار نہیں کرنا چاہیے؟ اسلامی حکومت کی عدم موجودگی میں یہ درجہ بندی حقیقت سے بعید ہے اس لئے ازکارِ رفتہ ہے۔

جیساکہ عرض کیا گیا فقہاکی مذکورہ درجہ بندی اسلامی حکومت کی موجودگی کو تو شناخت کرتی ہے لیکن مسلم اقلیتوں کی غیر مسلم آبادی میںبو دوباش کے احتمال کو نظر انداز کردیتی ہے۔ موجودہ دور کے بعض علما ،جو اس درجہ بندی کے دائمی ہونے کے قائل ہیں، ان کا اصرار ہے کہ مسلمانوں کو غیر اسلامی سیاسی نظام کے ساتھ مستقل کشمکش میں رہنا چاہیے(۷)۔

کیا یہ اس نئی صورت ِحال یعنی تکثیری معاشرہ کا،جس میں مسلمانوں کے پاس دوسروں کی ہم سائیگی میں رہنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے،ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ ہے؟اس حقیقت کے پیشِ نظر کہ انھیں اسی سماج میں رہنا اور نشو ونما پاناہے۔ اس کا عملی متبادل یہ بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ وہ اس سماج سے کٹ جائیں۔

اس پر بھی مستزاد یہ حقیقت ہے کہ یہ درجہ بندی امتِ مسلمہ کے مشن کے ساتھ متصادم ہے۔ امتِ مسلمہ کا نصب العین اہل ِدنیا کو خدا کا پیغام پہنچانا ہے۔ اس مشن کی تکمیل کی دوسری شرائط کے ساتھ ساتھ ایک اہم شرط یہ بھی ہے کہ عوام کے ساتھ محبت کا رویہ رکھاجائے۔کیا یہ درجہ بندی اسلام کی ان اعلیٰ انسانی اقدار پر مبنی ہے جو دعوت الی اللہ کا اصل نقطہ ارتکازہے؟

یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ اس درجہ بندی پر اصرار کے نتیجے میں اس کے مویّدین اور اس کے بعض موجودہ ماننے والوں نے اسلامی اقدار کی عجیب و غریب شکلیں ایجاد کرلی ہیں۔ اس درجہ بندی کو موجودہ معاشروں پر منطبق کرنے کے شوق اور جوش میں انھوں نے اسلام ہی کی چند بنیادی اقدار کو بدل ڈالا اور مسلمانوں کو ان کی روز مرہ زندگی کے فریضوں سے آزاد کردیا۔ ان کے مطابق دھوکہ دھڑی، بے ایمانی، غرر حتی کہ چوری بھی دار الحرب میں جائز ہے۔ بعض فقہاغیر اخلاقی اعمال پر تو پابندی لگاتے ہیں لیکن عقود ِ فاسدہ بشمول سودی بینک کاری کو ان حالات میں جائز ٹھہراتے ہیں(۸) ۔

تعجب ہے کہ انھیں یہ بالکل احساس نہیں کہ ان اقدار کی پامالی دراصل اسلام کی پرشکوہ عمارت کو مسمار کرنے کے مترادف ہے۔ وہ اس حقیقت کو ماننے سے بھی انکار کرتے ہیں کہ اقدار کی یہ رخصت، اگربفرضِ محال ہم انھیں صحیح مان بھی لیں، قدیم فقہا کے ذریعے دی گئی ایک عارضی رخصت تھی اس توقع کے پیش نظر کہ حالات جلد تبدیل ہوں گے۔ لیکن موجودہ تناظر میں جب کہ امت کوتکثیری معاشرے میں ایک طویل مدت کے لیے رہنا ہے اور تبدیلی جلد متوقع نہیں ہے، اس صورت میں احتمال ہے کہ اقدار میں عارضی رخصت ایک نیم مستقل اباحیت کی شکل اختیار کرلے گی جو اسلامی زندگی کے لیے زہرناک ہوگی۔

فقہا نے امت اور حکومت ِاسلامی کے درمیان اہم امتیاز کو بھی نظر انداز کردیا۔ اسلامی حکومت ایک عارضی دور ہے جبکہ امتِ مسلمہ ایک مستقل حقیقت۔ مخصوص زمانی و مکانی حالات میں حکومت بن سکتی ہے لیکن حکومت جانے کے بعد بھی امت قائم رہے گی۔ بلاشبہ اس مقصد کے لیے وہ ہمیشہ سرگرم رہے گی یعنی سیاسی نظام کو اعلیٰ و ارفع اقدار کی بنیاد پر قائم کرنا۔ لیکن سوال ہے کہ اس عبوری دور میں وہ ایک تکثیری معاشرے میں کیا رویہ اختیار کرے گی؟ راہِ دعوت بہت طویل اور کٹھن ہے اور ضروری نہیں کہ اسلامی حکومت میں یہ کامیاب ہوجائے۔

قرآن میں بہت سے انبیاکی حیات طیبہ کے تذکرے اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مثلاً بہت سے دیگرنبیوں کی طرح، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت موسیٰؑ ایک سیاسی نظام قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔ تا ہم انھوں نے دعوت الی اللہ کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوںنے دعوت کی اس طویل اور جاں گسل جدو جہد میں قوم کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا؟قوم کی ان کے ابدی پیغام کے تعلق سے لاپروائی اور ان کے حواریوں پر مظالم کے باوجود انھوں نے اپنا رشتہ قوم کے ساتھ منقطع نہیں کیا۔حتٰی کہ ان سے مثبت نتائج کی تمام امیدیں ختم ہوگئیں۔ انبیا کی زندگی اس بات کی روشن مثال ہے کہ مومنوں کو اپنے مخاطَب معاشرے کے ساتھ دعوت اور سماجی تعامل کو کس طرح متصل کرنا چاہیے۔

اس درجہ بندی کا اہم ضمنی نتیجہ یہ بھی ہے کہ یہ انسانیت کو چار درجوں میں تقسیم کردیتی ہے۔ ذمی، حربی، مستأمن اور غیر اسلامی حکومت کے سفار ت کار۔ یہ درجہ بندی بھی اسلامی حکومت کی موجودگی پر مبنی ہے۔ اس درجہ بندی میں غیر مسلم بمشکل ہی اس زمرے میں دیکھے جاتے ہیں جو دعوت الی اللہ کے بنیادی مخاطب ہیں۔ دورِ حاضر میں یہ تمام زمرے بنیادی طور پر نوعِ ِانسانی کا وہ حصہ ہیں جو دعوت کے مخاطَب ہیں۔ قدیم فقہا کے ذریعے متصور صورتِ حال سے بہت پرے آج ایک غیر مسلم آپ کا ہم سایہ ہے، ہم کار ہے، ہم وطن ہے اور تجارت، صنعت و حرفت اور دیگر معاشی سرگرمیوں میں مختلف حیثیتوں سے آپ کا شریک کار ہے اور حکومت کے معاملات میں آپ کے ساتھ شریک ہے۔ اس سے بھی اہم امریہ ہے کہ وہ ہماری آپ کی طرح انسان اور نوعِ انسانی کا ایک حصہ ہے۔ اسے وہ تمام خوشیاں، آرام، ضرورتیں اورحاجتیں درپیش ہیں جو آپ کو ہیں ۔ وہ بھی سماجی اور سیاسی تبدیلیوں سے اسی طرح متاثر ہوتا ہے جیسے آپ۔ عدم مساوات، ناانصافی، غریبی، بھکمری اور بیماریاں ان پر بھی یکساں اثرات مرتب کرتی ہیں۔ یہ حالات ہمارے اختیار سے باہر ہیںکہ ہم انھیں اپنی مرضی سے تبدیل کردیں۔غیر مسلموں کو دعوت الی اللہ کے مخاطب کے طور پر دیکھنے کے بجائے یہ درجہ بندی ہمیں ان مسائل سے رو شناس کراتی ہے جو اس امت کے نصب العین سے بالکل غیر متعلق ہیں۔ مسائل مثلاً غیر مسلموں سے تجارت کرنا، یا حکومت میں ان کے ساتھ اشتراک، یا غیر مسلم کو سلام کرنا اور اسی قبیل کے لاتعداد مباحث جس کی بنیاد تاریخ کے چند غیر حقیقی اور غلط مفروضوں پر ہے، الگ تھلگ مذہبی درس گاہوںمیںعلما کی بحث کا موضوع بن کر رہ گئے ۔

امت ِمسلمہ کے بنیادی مشن سے یکسر لاتعلق مباحث اور فکری مو شگافیاں بعض فقہی حلقوں میں ہنوز جاری ہیں،اور روزمرہ کی زندگی میں مسلمانوں کا مختلف النوع مذاہب اور عقائد کی حامل قوموں سے تعامل کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ زمینی حقائق سے چشم پوشی سے مسلمانوں کے نقطہ ہائے نظر میں سوائے الجھن اور اسلامی اقدار اور مسلمانوں کے اصل رویے کے درمیان دوہرے پن کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اور حالات کی ناگزیریت کے باعث اضطراب کی کیفیت پیدا ہونا بھی لازمی امر ہے۔ لیکن اس سے بھی سنجیدہ مسئلہ دعوت کے مشن کو نقصان پہنچنے کا ہے۔

اس درجہ بندی کی فقہی نفاستوں کے طلسم میں امتِ مسلمہ نے اپنی ترجیحات کو بدل ڈالا ہے۔ وہ ترجیحات جن کی خاطر اللہ نے انھیں مبعوث کیا تھا۔ مذکورہ درجہ بندی سے پیدا شدہ رجحان امت کے اندر انسان کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانے اورانھیںخالق ِاکبر کے اشرف المخلوقات ہونے کے مقام سے آشنا کرنے کی تڑپ یقینا پیدا نہیں ہونے دے گا۔ اورنہ ہی یہ اس عدل پرورانہ، ہمدردانہ اور پرسوز گروہ کے کردار کو نبھانے کے لیے معاون ہے جسے امتِ وسط کہتے ہیں۔
۔۔۔جاری۔۔۔
____________

حوالے اور حواشی

۔1 قاضی خان۔ حواشی فتاویٰ عالمگیری۔ یہ فتویٰ کہ ملک اب بھی دار الاسلام ہے فقہاء احناف نے بعد کے ادوار خصوصاً انگریزوں کے زمانے میں خوب استعمال کیا ۔ دیکھے ظفر الاسلام، ڈاکٹر۔ مسلم اینڈ عرب پرسپیکٹوز۔ جلد ۲ ص ۱۲-۱۱، ص ۶۱-۵۱، ۱۹۹۵
۔2 زیدان ،عبد الکریم۔ احکام الذمیون (بغداد)، ۱۹۶۳
۳۔3 کتاب الفصول۔ دار العلوم لائبریری دیوبند۔ بحوالہ ظفر الاسلام، ایضاً ،ص: ۵
۔4 الجریمہ والعقوبۃ فی الفقہ الاسلام (قاہرہ)، ص ۲۷۳
۔5 حمید اللہ، ڈاکٹر محمد۔ مسلم کنڈکٹ آف اسٹیٹ (لاہور)، ۱۹۵۳، ص ۲۳
۔6 اصلاحی ،عبد العلیم۔ دار الاسلام اور دار الکفر ، ص ۶۴۔ مکتبہ الاقصیٰ ،حیدر آباد
۔7 مثال کے طور پر دیکھیے: اصلاحی ،عبد العلیم۔ دار الاسلام اور دار الکفر،ص ۶۴۔ مکتبہ الاقصیٰ ،حیدر آباد
۔8 اصلاحی۔ ایضاً

اس سلسلہ کی  پہلی قسط کے لیے یہاں اور دوسری قسط کے لیے یہاں کلک کریں۔

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں