تبصرہ: مرید سخن۔ شعری مجموعہ

جمعہ, نومبر 01, 2013 عرفان وحید 0 Comments



ڈاکٹر طفیل آزاد (متخلص بہ صابرؔجہان آبادی) کے لیے کچھ لکھنا میرے لیے ایک  فریضے کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ میرے لیے شفیق مربی بھی ہیں اور بے تکلف دوست بھی۔ جب انہوں نے مجھے اپنے دوسرے شعری مجموعے 'مرید سخن' پر کچھ لکھنے کا حکم دیا تو میں نے بلا تأمل حامی بھرلی کہ ان کی محبتوں کے خیال سے انکار کا یارا نہ تھا۔ لیکن اب جب کہ میں لکھنے کے لیے بیٹھا ہوں ذہن میں ان کے فن اور شخصیت سے زیادہ اپنی بے بضاعتی اور کم مائیگی کا احساس غالب ہے اور ہر جنبش قلم پر ذہن میں یہی سوال گونجتا ہے: من کیستم؟ لیکن یہ فریضہ  تو بہر حال ادا کرنا ہے۔

صابرؔجہان آبادی- – ایک دردمند دل کا شاعر

شاعری نام ہے کائنات کے بسیط  مشاہدات  اور قلب و ذہن   کی واردات کو لطیف  پیرائے میں بیان کرنے کا۔ شاعر کو وہ دیدۂ بصیرت نگاہ عطا کیا گیا ہے جس کی بدولت شاعر ان چیزوں اور کیفیات کا مشاہدہ کرتا ہے جو عام انسانوں کی دسترس میں نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کی شاعری پرکبھی جزو پیمبری اورکبھی الہام ہونے کا گمان ہوتا ہے۔
صابرؔ جہان آبادی ایک دردمند دل رکھتے ہیں۔ شاعری ان کے لیے وسیلۂ اظہار نہیں بلکہ اپنے آپ سے گفتگو کرنے کا ذریعہ ہے۔ صابرؔ کی شاعری پڑھیے تو بادی النظر میں بڑے سادہ الفاظ اور سیدھے سادے خیالات نظر آتے ہیں لیکن دروں بینی سے جائزہ لیں تو ان میں گہرا فکری عمق اور پختگی کارفرما ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ سیدھے سادے شعر اپنے اندر معنی کی کیسی کیسی پرتیں سموئے ہوئے ہیں۔  شاعر اپنی داخلی کیفیات کو ابھارنے کے لیے بھاری بھرکم الفاظ، مبہم تشبیہات و استعارات اور گنجلک فلسفیانہ باتوں کا سہارا نہیں لیتا بلکہ عام فہم ،سادا ، سبک اور پیچ و خم سے عاری الفاظ سے ہی وہ معنی کی تہیں بٹھاتا چلا جاتا ہے۔
ان کے اشعار میں دھیمی دھیمی بہنے والی جوئے آب کی خفتہ سی روانی بھی ہے اور تیز رو ندی کا جو ش بھی۔ لہجہ کبھی نرم اور کبھی برہم ہوتا ہے۔ اس میں پچھلے زمانے کی ناسٹلجیائی اداسی بھی ہے اور مستقبل کی تابناک امیدیں بھی۔  شاعر  کااپنے سلسلہ تلمذ سے  والہانہ انسلاک اور لگاؤ بھی ملتا ہے اور اپنے ہم عصر  اور ہمکار احباب کا تذکرہ بھی۔ 
سچا فنکار اپنے آس پاس کے حالات سے باخبر رہتا ہے ۔ حسن عسکری کے بقول ہر ادب پارہ اپنے اندر حقیقت کا کوئی نہ کوئی تصور رکھتا ہے۔ صابر کا اشہب قلم بھی محض تخیل کی سرسبز اور رنگین وادیوں میں گلگشت نہیں کرتا بلکہ ان کے کان عصری ماحول کی چیخ پکار پر بھی لگے رہتے ہیں جو ان کے فن میں ڈھل کر سراپا احتجاج بن جاتے ہیں۔صابر صاحب کے بہت سے اشعار سہل ممتنع کا درجہ رکھتے ہیں۔ عام بول چال میں وہ اپنی بات کہہ گزرتے ہیں۔ آئیے ان کے چند اشعار دیکھتے چلیں:

شاخوں سے آج پتے بچھڑ بھی گئے تو کیا
ماضی کی پھر بھی یاد کا قائم شجر تو ہے

آرزو وصل کی کچھ اس طرح ہوئی رنجیدہ
جیسے دلہن کوئی میکے سے سسکتی جائے

اپنے اسلاف کے رستے سے بھٹک کر صابر
یہ نئی نسل پریشان ہوئی جاتی ہے

تجھ کو پانے کی دعا مانگی مگر لا حاصل
اب دعا کے لیے ہم ہاتھ اٹھاتے بھی نہیں

کھوئی تہذیب کہاں ہے صابرؔ
آؤ مل جل کے پتہ کرتے ہیں

اتنی مہلت بھی نہیں خود سے کہ ہم بات کریں
جسم کا بوجھ اٹھانے سے کہاں فرصت ہے

شہر کی رونقیں بڑھیں جب سے
ہو کا عالم ہے تب سے گاؤں میں

پوچھتا پھرتا ہوں اپنے ہی نشیمن کا پتہ
آج کس موڑ پہ یہ زیست مجھے لے آئی

قسمت کا لکھا کیا ہے، اور لوح و قلم کیا ہے؟ 
یہ کیا ہے سیاہی کا کاغذ پہ بکھر جانا

سعی لاکھ کی تجھ کو پانے کی میں نے 
مگر آج جانا کہ تو رو برو ہے

اس کی خفگی میں ہی شامل ہے وفا کی خوش بو
وہ اگر مجھ سے خفا ہے تو خفا رہنے دے

آپ پڑھتے ہیں کب کتابِ دل 
آپ سے بس یہی شکایت ہے

نسلِ آدم کی بقا اور ترقی کے لیے
بزمِ ہستی کو ابھی اور سنورنا ہوگا

مفلسی در پہ کھڑی رہتی ہے
یہ مرے گھر کا پتہ ہو جیسے

دعا کرتا ہوں سب کی خیر خواہی کی
دعاؤں میں اثر میری، خدا دے گا

زمانے سے آنسو چھپائے تو تھے
مگر آنکھ میں کچھ نمی رہ گئی

یہ کٹھن کام ہے بہت صابرؔ
اپنے عیبوں کو بھی ہنر کہنا

ان کے یہاں اتھاہ انسان دوستی پائی جاتی ہے۔ احساس زیاں کا کرب اور گزرے دور کی محرومیوں کے تذکرے سے وہ ہمارے قلب و ذہن پر دستک دیتے ہیں۔  ان اوصاف کے ساتھ کوئی تعجب کی بات نہ ہوگی کہ کل صابرؔ جہان آبادی ہمارے لیے ایک جانا مانا نام ہو لیکن جو وہ آج ہیں اس کی داد تو دیتے چلیں۔ 
ان کے شعروں میں عام گفتگو کا سا انداز پایا جاتا ہے اور ایک سوچتی  ہوئی غمگین لیکن سنجیدہ فضا قاری کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے۔ خلوص اور انسان دوستی ان کے اشعار کا خاصہ ہیں۔ زبان تصنع اور ریاکاری سے پاک ہے۔ ہاں کہیں کہیں   آورد کا احساس ہوتا ہے  اور ان کے ابتدائی دور کا کلام  شامل اشاعت ہونے سے بعض فنی اسقام بھی در آئے ہیں  لیکن یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کتاب کے مجموعی تاثر کو نقصان پہنچاتی ہو۔اس سب کے باوجود قاری کو ان کے اشعار موہ لیتے ہیں۔ یہ مجموعہ کتنا کامیاب ہے اس کا فیصلہ تو قارئین کو کرنا ہے۔ ہمیں بس اتنا کہنا ہےکہ خوب سے خوب تر کی جستجو میں صابرؔ جہان آبادی کو بس اسی پر قناعت نہیں کرنی ہے بلکہ اظہار  کے نئے آفاق کو چھونا ہے لیکن یہ مشروط ہے عمیق مطالعہ و مشاہدہ اور کڑی ریاضت اور استقامت سے۔

ان منکسرانہ معروضات کے ساتھ میں مرید سخن کا ایک جدید تخلیقی مرقع کے طور پر استقبال کرتا ہوں۔ 
۳۰ستمبر۲۰۱۳ء

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں