عصر حاضر میں مذہب کی اہمیت و معنویت
ہر چند کہ سیکولرازم کے فروغ کی وجہ سے اخلاقیات کو مذہب سے الگ جز تصور کیا جانے لگا ہے لیکن یہ ایک حقیقت کہ تمام مذاہبِ عالم عمومی سماجی اخلاقیات کاکم و بیش یکساں درس دیتے ہیں۔تمام مذاہب میں جھوٹ، چوری، لوٹ مار، قتل و غارت گری، زنا او ردیگر اخلاقی خامیوں کی یکساں ممانعت وارد ہوئی ہے۔ انسانی زندگی میں مذہب معنویت اور رنگ پیدا کرتا ہے۔دنیا کی تمام تر ثقافتی، سماجی ، اخلاقی اور فلسفیانہ ترقی کا رشتہ مذہب سے ہے۔ مذہب انسانوں کو قریب لانے کا ذریعہ ہے۔ غور کیجیے، آپ پچھلی بار اپنے دور رہنے والے اعزا و اقارب سے کب ملے تھے۔ غالب امکان یہی ہے کہ ایسا موقع کسی مذہبی تہوار نے فراہم کیا ہوگا۔ تمام منظم مذاہب انسانوں کو برادری کا شعور بخشتےہیں۔ انسان بغیر معاشرے اور برادری کے کتنا تنہا محسوس کرے گا۔ آپ کے سامنے سے گزرنے والے اجنبی سے ہوسکتا ہے آپ کا کوئی تعلق نہ ہو، لیکن مذہب اس احساس اجنبیت کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ہمیں احساس کرواتا ہے کہ ہم ایک مضبوط برادری کا حصہ ہیں۔ پھر مذہب ہمیں زندگی کرنے کا ہنر سکھاتا ہے۔ یہ علم کی تحصیل اور روزمرہ زندگی میں اسے برتنے پر یکساں زور دیتا ہے۔ دنیا کی کوئی بھی یونیورسٹی آپ کو یہ نہیں سکھاتی کہ تنہائی میں آپ کیسے رہیں، آپ کا اخلاقی رویہ کیا ہو،جب آپ کو کوئی نہ دیکھ رہا ہو اس وقت آپ اپنے کردار کو برائیوں سے کیسے دور رکھیں ؟یہ آداب مذہب سکھاتا ہے۔
خوشی اور غم انسانی زندگی کے لاینفک اجزا ہیں۔ خوشی اور غم کے موقعوں پر انسانی رویے کے رہنما اصول مذہب نے عطا کیےہیں۔ خوشی ، امید اور غم کے درمیان توازن پیدا کرنے میں مذہب کے کردار سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ اس توازن کی مثال یروشلم کی دیوارگریہ میں، نماز اور تہجد میں اور دیگر مذاہب میں دعا کے مواقع پر گریہ و زاری کی تلقین میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مذہب ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنے غم میں تنہا نہیں ہیں، بلکہ کوئی ایسی ہستی ہے جس سے لو لگائی جاسکتی ہے ، امید کا دیا روشن رکھا جاسکتا ہے۔ عیسائیت میں تصور ہے کہ روح ایک بچے کی طرح ہوتی ہے۔ حضرت مریم کی پرستش میں عیسائی برادران گویا اپنی روح کے لیے مامتا کی جستجو کرتے ہیں۔ چینی بدھ مت میں تصور ہے کہ guanyin نامی ایک بودِھستوا ہے جو زنانہ صورت میں غم کے موقعوں پر آتی ہے اور غم گزیدہ افراد کو گلے لگاکر ان کے غم کو ہلکا کرتی ہے۔ حضرت مسیح کی ماں ، مصر میں آئسس دیوی، روم میں دیمتر دیوی اور ہندوستان میں درگا، کالی اور شکتی دیویاں وغیرہ ان آسمانی ماؤں کی شکلیں ہیں جو محبت، مامتا اور طاقت کی علامت ہیں اور انسانی کمزوریوں کا احساس دلاتی ہیں ، لیکن اس طرح کہ ان کمزوریوں کو مذہبی رسومات کی شکل میں رچایا اور منایا جاتا ہے، انھیں تسلیم کیا جاتا ہے۔ بلیز پاسکل نے لکھا تھا کہ ‘انسانی عظمت کا راز اس امر کے احساس میں مضمر ہے کہ وہ بے بس اور لاچار ہے۔‘ مذہب ہمیں اسی بے بسی اور لاچاری کا احساس کراتا ہے ۔ مذہب کائنات میں ہمیں ہماری حیثیت کا احساس بھی دلاتا ہے اور ہمیں حلیم اور منکسر رکھتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے جو ہماری زمین سے ۱۳ لاکھ گنا بڑا ہے۔ لیکن ہمارا سورج بھی دریافت شدہ کائنات کے سب سے بڑے ستارے Eta Carinae کے مقابلے میں ہیچ ہے جو ہمارے سورج سے ۵۰۰ گنا بڑا اور ۵ ملین گنا زیادہ روشن اور ۷۵۰۰ نوری سال کی مسافت پر واقع ہے۔ اتنی بڑی کائنات میں زمین اور انسان کی حیثیت ایک پرکاہ کے برابر بھی نہیں ہے۔ یہ دلاسا مذہب دیتا ہے کہ کائنات میں ہم اکیلے نہیں ہیں بلکہ خالق کائنات کی محبوب ترین مخلوق ہیں۔
گزشتہ دو سو برسوں میں مذہب اور تصور مذہب بحران کے دور سے گزر رہا ہے۔ اس مختصر مضمون میں ہم مذہب پر ہونے والے چند عام اعتراضات کاجائزہ لیں گے۔
کیا مذہب اور سائنس میں مفاہمت ممکن ہے؟
مذہب اور سائنس دونوں انسانی زندگی کے ناگزیر عناصر ہیں۔ سائنس اور مذہب کے درمیان چپقلش کا آغاز اٹھارہویں اور اُنیسویں صدی کی پیداوار ہے۔ اسی دور میں جدید سائنس کا ظہور ہوا۔ سائنسی دریافتوں میں ایک قدرتی کشش اس بنا پر ہوتی ہے کہ ان کا دارومدار مکمل طور پر مشاہدے اور تجربے پر ہوتا ہے، جو انسانی شعور اور عقل کو براہِ راست متاثر کرتی ہیں۔فطری طور پر انسان ظاہر میں نظر آنے والی چیزوں کا اثر تیزی اور شدت کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ تاہم سائنسی دریافتوں سے جوماحول بنا اس میں لوگ یہ سمجھنے لگے کہ اب خدا کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ مذہب اب فرسودہ روایت سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ان کے نزدیک خدا کو ماننا اس لئے ضروری تھا کہ اس کو مانے بغیر کائنات کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی تھی۔ جدید سائنس نے بتدریج کائنات کے اسرار سے پردہ اٹھانا شروع کیا تو انھیں لگا کہ کائنات اور اس میں واقع ہونے والا ہر امر ایک سبب کی وجہ سے ہے جو فطری اصولوں کے تحت وقوع پذیر ہورہا ہے، اوران فطری مظاہر کو سمجھا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات میں وقت کے ساتھ ساتھ تغیر اور تحریف ہوتی رہی۔ یونانی فلسفے اور تصورات نے اس پر غلبہ حاصل کرلیا اور رفتہ رفتہ فلسفیانہ مباحث مذہب کا حصہ بن کر تقدس کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اگرچہ ان مباحث میں خیالی اور تصوراتی مفروضوں کی بہتات تھی۔مثلاًارسطو نے مرکزیت زمین کا نقطہ نظر پیش کیا، جس کا عیسائیت کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مرور زمانہ سے یہ تصور عیسائیت میں جذب ہوگیا اور چرچ کا سرکاری تصور ٹھہرا۔ جب سائنس کی مشاہدے اور تجربات پر مشتمل انکشافات سامنے آنا شروع ہوئے تو مذہب کا حصہ بن جانے والے ان مفروضوں میں دراڑیں پڑنے لگیں، جسے اہل مذہب (کلیسا) نے اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھا۔ اور یوں اہل سائنس اور اہل مذہب (عیسائیت) کے مابین ایک کشمکش کا آغاز ہوگیا۔ پوپ کے خاص حکم کے تحت ایک خصوصی عدالت قائم کی گئی جس میں تقریباً تین لاکھ افراد کی پیشی ہوئی۔ ان کے لیے سخت سزائیں تجویز ہوئیں اور تقریباً ۳۰ ہزار افراد کو زندہ جلا دیا گیا۔ گلیلیو اور برونو جیسے افراد بھی ان سزا یافتگان میں شامل تھے۔ یہ دور مذہب اور سائنس کی علیحدگی کا نقطہ عروج تھا۔ یہیں سے وہ کشمکش شروع ہوئی، جو بالآخر سائنس اور مذہب کی جنگ بن گئی۔ یہ تصادم کوئی دو صدیوں تک جاری رہا۔ تاہم زیرزمین سائنسی نظریے کے حامل افراد اپنا کام کرتے رہے۔ آہستہ آہستہ چرچ کمزور ہوتا گیا۔ چارلس ڈارون نے ۱۸۵۹ میں اپنی کتاب ‘اورجن آف اسپیشیز’ شائع کی جس چرچ کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی۔لیکن اس وقت تک اس کی طاقت کمزور پڑ چکی تھی ۔ بالآخر دونوں کے درمیان سمجھوتہ طے پاگیا جو سیکولرازم کی شکل میں تھا۔ اب سائنس اور مذہب کے درمیان علیحدگی ہوگئی، دونوں کی حدودکار اور دائرہ کارمتعین کردیے گئے۔ یوں کلیسا اور اہل سائنس کے درمیان جنگ کا خاتمہ تو ہوگیا لیکن دونوں نے اپنے راستے الگ کرلیے ۔ یہ ایک غیر فطری تقسیم تھی، مذہب نے سائنس کو دور کرکے اپنے لیے جمود کی راہ چنی دوسری جانب سائنس مذہب سے دور ہوکر بےخدا ٹھہری۔
اس کشمکش کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں میں یہ تصور عام ہوگیا کہ مشاہدات اور تجربات پر مبنی علم ،یعنی سائن ، اور مذہب ایک دوسرے کی ضد ہیں، اور ایک کی ترقی دوسرے کے لئے موت کا درجہ رکھتی ہے۔
دورحاضر میں مذہب کے انکار کی ایک اور وجہ بھی ہے جسےبعض ماہرین نے مادرپدرآزادی اور اباحیت سے تعبیر کیا ہے۔ ایک امریکی مصنف جارج ہربرٹ کے نزدیک ‘لوگوں کو ڈر ہے کہ خدا کو ماننے کے بعد ان کی آزادی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ وہ ادانش ور جو فکری آزادی کے دلدادہ ہیں ، ان کے لیے اس آزادی مںگ کسی بھی قسم کی کمی یا محدودیت کا کوئی بھی تصور بڑا ناقابل قبول ہے۔’
تقابل ادیان کے معروف ماہر ،جن کا گزشتہ دسمبر ۲۰۱۶ میں انتقال ہوگیا، پروفیسر ہسٹن اسمتھ کے الفاظ میں ’مذہب اور سائنس کے درمیان مجھے کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ بلکہ اس کے برعکس، سائنس میں مجھے وہ تمام تمثیلیں نظر آتی ہیں جن کی طرف مذہب اشارہ کرتا ہے اور جن کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ مثال کے طور پر سائنس اور مذہب دونوں کا کہنا ہے کہ حقیقت کا ادراک ہماری اہلیت سے بہت ماورا ہے، سائنس اسے عددی زبان میں نوری برسوں اور اینگسٹرام اور دیگر اکائیوں میں ظاہر کرتی ہے اور مذہب کی طرح اس کے صفاتی پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ادھر مذہب بھی سائنس کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے کہ اثبات حقیقت وجدانی ہے، یعنی انسانی ادراک اور بیان کی قوتوں سے بالاتر ۔ اس مشکل میں سائنس کی راہ ریاضی سے ہوکر گزرتی ہے جبکہ مذہب کی راہ صوفی کے کشف پر مبنی ہے۔ دونوں کے اس بیان میں کوئی تفاوت نہیں کہ ہمارا موجودہ زمانی و مکانی ادراک ناکافی ہے۔ ’(دی وے تھنگز آر، ہسٹن اسمتھ، ص ۱۰۸)
مذہب و سائنس کے درمیان عدم مفاہمت ہی کا نتیجہ ہے کہ اسٹیون وینبرگ جیسے سائنس دانوں کو کہنا پڑتا ہے کہ ’ہم کائنات کی گتھیاں سلجھانے میں جتنا کامیاب ہوتے جارہے ہیں یہ اتنی ہی بے معنی ہوتی جاتی ہے۔ ’ ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہب اور سائنس کے درمیان یہ رشتہ از سرِنو استوار کیا جائے۔ فطری مظاہر کے انکشافات میں اگر سائنس علت و معلول کے ساتھ مذہب کے غایت (purpose) کو شامل کرے تو اس کی معنویت میں در آنے والا خلا دور ہوسکتا ہے۔ برٹرینڈ رسل نے بھی لکھا ہے: ‘سائنس کے دائرےمں یہ با ت پہلے بھی شامل رہی ہے، لامذہبتد اختا ر کرنے سے پہلے تک سائنس واقعات کے ہر سلسلے کو مذہب کی طرح علت، معلول اور غایت پر منحصر سمجھا کرتی تھی۔’
کیا مذہب امن عالم کے قیام میں رکاوٹ ہے؟
مذہب پر ایک عام اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کی تاریخ عالم میں تمام تر خوں ریزی اور ہلاکتوں کے پیچھے مذہب کی اشاعت اور غلبے کی خواہش کارفرما رہی ہے۔ مغرب میں یہ تصور جڑ پکڑ چکا ہے کہ مذہب فطری طور پر تشدد پسند ہوتا ہے۔ حتی کہ جو لوگ مذہب کو تمام تر انسانی خوں ریزی کا سبب نہیں مانتے وہ بھی مذہب کو عسکریت پسندگردانتے ہیں۔ اس کی حمایت میں صلیبی جنگوں، سولہویں اور سترہویں صدی میں مذہبی جنگوں اور موجودہ زمانے میں دہشت گردی کے واقعات سے استدلال کیا جاتا ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مذہب اور خاص طور پر اسلام دہشت پسند مذہب ہے۔
کیرن آرم اسٹرانگ نے اپنی کتاب ‘فیلڈز آف بلڈ ’میں مثالوں اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ بعض مستثنیات سے قطع نظر، انسانی تاریخ کی خوں ریز جنگیں مذہب کے غلبے کے لیے نہیں بلکہ سیاسی وجوہ اور توسیع پسندانہ عزائم کی بنا پر لڑی گئیں۔جنگ کے بنیادی اسباب یا تو ثقافتی ہوتے ہیں یا پھر علاقے، وسائل اور قوت کے حصول کی کشمکش۔ ثقافتی آویزشوں کو بسا اوقات مذہبی جنگ پر محمول کرلیا جاتا ہے۔ طالبان اور داعش جیسے گروہوں کے بارے میں مصنفہ کہتی ہیں کہ مذکورہ گروہ دہشت گردانہ کارروائیوں میں اس لیے ملوث نہیں ہیں کہ انھوں نے قرآن کو دوسروں سے زیادہ سمجھ کر پڑھا ہے بلکہ اس کے برعکس انھوں نے قرآن پڑھا ہی نہیں یا قرآن میں انسانی جان کے احترام اور زمین پر فتنہ و فساد کی ممانعت والی آیات کو یکسر نظراندازکردیا۔ آرم اسٹرانگ نے پوری تاریخ انسانی کے جائزے سے یہ بات بزور ثابت کی ہے تشدد ، ظلم اور غارت گری کا مذہب سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہا۔ جدید دور میں ہٹلر، اسٹالن اور ماؤ جو لاکھوں انسانی جانوں کے اتلاف کا سبب بنے تمام ملحد تھے۔ ہولوکاسٹ کے پیچھے کارفرما مذہب نہیں بلکہ نسلی منافرت تھی۔
براڈفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ مطالعات امن نے ایک ریسرچ کروائی جس میں گزشتہ تین ہزار سال میں ہونے والی ۷۳ بڑی جنگوں میں مذہب کے کردار کی تحقیق کی گئی۔ ان میں سے ۳۲ جنگیں بیسویں صدی میں پیش آئیں۔ اس مطالعےکے نتیجے ‘گاڈ اینڈ وار: این آڈٹ اینڈ ایکسپلوریشن’ میں پیش کیے گئے۔ اپنی قسم کا یہ سب سے تفصیلی اور جامع مطالعہ ہے جس میں تمام جنگوں کے عوامل، ان میں مذہب، مذہبی پیشواؤں،مذہبی تحریک اور سیاسی ترغیب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس مطالعے کے نتیجے دلچسپ اور حیران کن ہیں۔
محض ۷ جنگوں میں (۱۰ فیصد) میں مذہب ایک محرک تھا۔ عرب اسرائیل جنگ ، جس میں مذہب ایک اہم عنصر کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اس مطالعے کی رو سے بنیادی طور پر قومیت کی بنیاد پرلڑی گئی جنگوں میں شامل ہے۔ بیسویں صدی کی سب سے بڑی مذہبی بنیاد پر لڑی گئی جنگ دوسری خلیجی جنگ تھی (جارج بش کے بیان کے مطابق یہ عیسائیت اور اسلام کے خلاف جنگ تھی)، جس میں امریکہ اور اس کے اتحادی عراق کے خلاف لڑے۔ بیسویں صدی کی ملحدانہ مطلق العنان حکومتوں (روس میں اسٹالن اور چین میں ماؤ) نے تاریخ انسانی میں کسی بھی مذہبی حکومت کے تحت کیے جانے والے قتل عام سے زیادہ قتل کیے۔ اسٹالن نے ۷۰ ملین لوگوں کو قتل کروایا، ماؤ نے ۴۰ ملین لوگوں کو اور ہٹلر نے ۲۵ ملین لوگوں کو ہلاک کیا۔ یہ تینوں ملحد تھے۔ اس مطالعے کے مصنفین نے جنگ بندی اور امن و آشتی کے قیام میں مذہبی پیشواؤں کے مثبت کردارپر بھی روشنی ڈالی ہے۔ مطالعے کے مطابق ‘گزشتہ سو برس میں اگر کوئی جنگ مذہب کی بنیاد پر لڑی بھی گئی ہے ، تو مجرد مذہبیت کا کردار اس میں بہت کم رہا ہے۔ مذہب کے عام تشدد پسندانہ تصور کے باوجود، اس مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ تصویر بہت پیچیدہ ہے۔ ’
اسی طرح ۲۰۰۴ میں شائع ہونے والی’ انسائیکلو پیڈیا آف وارز ’کے امریکی تاریخ نویسوں چارلس فلپس اور ایلن الیکسروڈ نے گزشتہ ۵۰۰۰ برسوں کی ۱۷۶۳ جنگوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ ماحصل پیش کیا ہے کہ محض ۱۲۳ جنگیں (۷فیصد) مذہبی آویزش کا نتیجہ تھیں۔اسی نتیجے کی توثیق گورڈن مارٹل کی کتاب ‘انسائیکلو پیڈیا آف وار’ بھی کرتی ہےجس میں نتیجہ اخذ کیا گیاہے کہ تاریخ کی محض ۶فیصد جنگیں’ مذہبی ’تھیں۔ ولیم ٹی کاوانوگ نے اپنی کتاب ‘متھ آف ریلیجیس وائلنس’ میں ثابت کیا ہے کہ جن جنگوں کو مذہبی قرار دیا جاتا ہے دراصل ان کے پیچھے سیکولر(معاشی اور سیاسی) عوامل کارفرما ہیں۔
حالیہ برسوں میں مذہب کے نام پر دہشت گردی کے واقعات نے مذہب ، خاص طور پر اسلام ،کو بدنام کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ بروس ہافمین نے دہشت گردی کی تعریف یوں کی ہے: ‘تشددیا تشدد کی دھمکی کے ذریعے عمداً خوف پیدا کرنےکی کوشش اور سیاسی تبدیلی کے لیے اس کا استعمال کرنا۔’ بیسویں صدی کےنصف اول کا دور بدامنی سے عبارت تھا۔ اسی دور میں دو عالمی جنگیں اور تقریباً ۱۵۰ خانہ جنگیاں پیش آئیں اور اسی دور میں گوریلا طریق جنگ اور دہشت گردی کو فروغ ملا۔ پہلے پہل دہشت گردی کے حربے اسٹالن دور کے روس اور نازی جرمنی میں استعمال کیے گئے تاکہ قومی نظریے پر عوام کو قائم رکھنے کے لیے خوف کا ماحول پیدا کیا جاسکے۔ لیکن اس کا ستعمال سیاسی قتل، اغوا، بمباری اور دھمکیوں کے لیے بھی کیا گیا۔ اسرائیل کی تشکیل کے لیے زیرزمین صیہونی تنظیم ارگن نے منصوبہ بند دہشت گردی کی واردات کو انجام دیا اور کنگ ڈیوڈہوٹل کو نشانہ بنایا تھا۔ماہرین کا ماننا ہے کہ دہشت گردی کو مذہب سے جوڑنا ، اس مسئلے کو دھندلا کرنے کے مترادف ہے۔ عالمی امور اور سیاسیات کے ایمی زلمین کے مطابق، ‘تمام محققین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ مذہب نہ دہشت گردی کو پیدا کرتا ہے اور نہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی میں محرک ہوتا ہے۔ مذہبی ترغیب سے حملہ آوروں کو تحریک دینے مدد ضرور ملتی ہے اور خود کشی کو شہادت کا نام ضرور دے دیا جاتا ہے ، تاہم اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ خود کش حملہ آوروں نے ایسا رویہ کیوں اختیار کیا۔’ اس پیچیدگی کی ایک مثال سری لنکا کی خانہ جنگی ہے جس میں دہشت گردی اور خود کش حملے کے واقعات پیش آئے ۔ یہاں نسلی اور مذہبی تفرقات نے تمل ریاست کے قیام کی جدوجہد کی شکل اختیار کرلی لیکن تمل ٹائیگرز نو مارکسی نظریے کے حامل تھے اور ماہرین کے مطابق یہ جدوجہد مذہبی نہیں بلکہ سیکولر تھی۔ برطانیہ کی سلامتی تنظیم ایم آئی فائیو نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے: ‘دہشت گردی میں ملوث پائے جانے والے ان جنونیوں کا مذہب سے دور کا واسطہ نہیں ہوتا، یہ مذہب پر کاربند نہیں ہوتے اور مسلمہ مذہبی تشخص درحقیقت تشددپسندانہ سرگرمیوں کی مذمت کرتا ہے۔’
کیا اکیسویں صدی لادینی صدی ہوگی؟
مفروضہ عام ہے کہ مذہب اور معاشی و تکنیکی ارتقا ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ جیسے جیسے کوئی معاشرہ تکنیکی و سائنسی اعتبار سے ترقی کے مدارج طے کرتا جاتا ہے، مذہب کی جگہ اس معاشرے سے کم سے کم تر ہوتی جاتی ہے اور اس معاشرے کا نقطہ نظر (worldview) لادینی اور سیکولر ہوتا جاتا ہے۔ اس مفروضے کی حمایت میں اکثر مثال دی جاتی ہے کہ مغربی یورپی معاشرے نے ۱۹ویں اور ۲۰ ویں صدی کے دوران جو ترقی کی ہے وہ اس کے لادینی نظریہ حیات کی مرہون منت ہے جبکہ اس کے برعکس براعظم افریقہ میں جہاں جدید تکنیکی ترقی کا فقدان ہے وہاں کے معاشرے معاشی و تعلیمی اعتبار سے بھی پس ماندہ ہیں تاہم ان معاشروں میں مذہبیت اور روایت اب بھی مضبوطی سے قائم ہے۔
لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ دنیا کے بقیہ ممالک کی صورت حال کیا ہے؟ کیا سیکولرازم میں اضافہ ہوا ہے؟ جی نہیں۔ بلکہ مختلف ممالک میں مذہب ایک اہم ترین قو ت کے طور پر ابھرا ہے۔ یورپ میں ، جہاں نشاۃ ثانیہ اور روشن خیالی کی تحریک نے سائنس اور مذہب درمیان آویزش رہی جو موجودہ سیکولرازم کی پیدائش کا سبب بنی،کیتھولک احیا کے آثار کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔ وہاں قومی تشخص پر اسلام کی زبردست اشاعت کی وجہ سے (تبدیلی مذہب اور مشرق وسطی سے تارکین وطن کی آمد کے باعث) تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔ جنوبی کوریا نے گزشتہ عشروں میں حیران کن ترقی کی ہے۔ وہاں عیسائیت آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم تھی لیکن آج آبادی کا ۳۰ فیصد سے زائد حصہ عیسائیت کا پیروکار ہے۔سابقہ اشتراکی بلاک کے ممالک کی مثال سامنے ہے جہاں کم و بیش تمام ممالک کو سرکاری طور پر لادینی و ملحد قرار دے دیا گیا تھا لیکن وہاں اب مذہب کا زبردست احیا ہو رہا ہے۔ دی سولائزیشن آف دی ڈائیلاگ کے کمیونسٹ مصنف ہینز کلوپنبرگ کو تسلیم کرنا پڑا کہ ‘مذہب معاشروں کے لیے ایک اہم محرک ہے۔’ پولینڈ کا کوئی بھی تذکرہ وہاں پر کیتھولک ثقافت کے اثرات کے ذکر بغیر تشنہ ہوگا۔ روس میں بھی روسی تشخص کی تشکیل میں پتن حکومت کے اہم اتحادی کے طور پر اب چرچ کی اہمیت تسلیم کی جانے لگی ہے۔ چین جو ہرچند سرکاری طور پر اب بھی ملحد ہے تاہم کبھی عملی طور پر پوری طرح لامذہب نہیں رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ چین میں مقامی مذہبی روایات اور بدھ مت کبھی معطل نہیں ہوئے ۔ اب وہاں عیسائیت کی زبردست اشاعت و تبلیغ سے ماہرین مانتے ہیں کہ اگلے چند عشروں میں چین سب سے بڑا عیسائی ملک بن جائے گا۔ لاطینی امریکہ میں عیسائیت کے مختلف فرقے اپنی اشاعت کے لیے کوشاں ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ امریکہ میں اگرچہ مذہب سے لاتعلقی کا اظہار عام ہے لیکن دوسری طرف اعداد و شمار اشارہ کرتے ہیں کہ ۱۹۵۰ کی دہائی کے مقابلے آج وہاں پر زیادہ لوگ خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ عبادت گاہوں میں کثیر تعداد میں حاضری ہوتی ہے۔مشرق وسطی اور عالم عرب میں بھی اسلام ایک متحرک قوت کے طور پر ابھرا ہے اور ایک عام مفروضے کے برعکس اس مذہبی احیا کا بڑا حصہ تشدد پسند نہیں بلکہ امن پسند ہے تاہم آمرانہ قوتوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔ جنوبی ایشیا میں مذہبیت کا اس سے زیادہ اظہار تاریخ میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ مختصر یہ کہ دنیا کہ جس گوشے پر بھی آپ نظر یں دوڑائیں آپ کو مذہب کی ترویج و ترقی اور احیا پسندی کے مظاہر نظر آئیں گے۔
امریکی میگزین دی ویک کا کالم نگار پاسکل عمانوئل کہتا ہے کہ اکیسویں صدی مذہبی احیا کی صدی ہوگی۔ مابعد نشاۃ ثانیہ کے سیکولرنظریہ حیات نے مذہب کو انسان کا نجی شوق، اور ‘اجتماعی زندگی کے لیے افیون ’ قرار دیا تھا۔ اس نظریے میں انسان کی روحانی و قلبی واردات کی کوئی جگہ نہیں تھی۔نظریہ ارتقا نے انسان کو محض جینز کا اجتماع قرار دیا جو اپنی بقا کے لیے کوشاں ہیں۔ معاشی نظریے نے ہر سعی و جہد کا محور جلب نفعت کو قرار دیا جبکہ نفسیات کے ماہرین نے جنس کو ساری انسانی تگ و دو کا مرکز قرار دیا۔ ان نظریات نے تمام تر انسانی سرگرمی کو مادیت میں محدود کردیا۔ لیکن انسان محض گوشت پوست اور مادے سے نہیں بنا ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ پہلے روح ہے۔ فطری طور پر مابعدالطبیعیاتی مظاہر کی طرف کھنچتا ہے۔ پوری تاریخ انسانی میں مذہب انسان کے نظریہ حیات کا صورت گر رہا ہے اور مستقبل میں بھی ، خصوصی طور پر اکیسویں صدی میں بھی ، مذہب کی یہ حیثیت قائم رہے گی ۔
0 comments:
تبصرہ کیجیے