غزل۔ کنارِ فرات امتحاں اور بھی ہیں

بدھ, اکتوبر 30, 2013 عرفان وحید 0 Comments


کنارِ فرات امتحاں اور بھی ہیں
لبِ دریا تشنہ لباں اور بھی ہیں


ابھی عشق کی سختیاں اور بھی ہیں
ابھی رہ میں دشتِ زیاں اور بھی ہیں

یہ موقوف کچھ دوستوں پر نہیں ہے
یہاں دشمنِ نقدِ جاں اور بھی ہیں

کڑی دھوپ تھی راحتِ جاں، جو سمجھا
مری راہ میں سائباں اور بھی ہیں

نہیں ایک میرا ہی غم معتبر کچھ
-دکھی دل ہزاروں یہاں اور بھی ہیں۔

ہمیں ہے امیدِ کرم ان سے ورنہ
ستم کچھ ورائے گماں اور بھی ہیں

ابھی ہیں اندھیرے جو غالب تو کیا غم
ابھی کچھ دیے ضو فشاں اور بھی ہیں

اگر ایک دیوار ہے بے مروت
شجر اور بھی، سائباں اور بھی ہیں

عرفان وحید۔۳۰/اکتوبر، ۲۰۱۳

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے