غزل۔ اے وقت ترے جبر کی توقیر کہاں تک

اتوار, دسمبر 29, 2013 عرفان وحید 0 Comments



ہو دیدٔہ خوش خواب کی تعبیر کہاں تک
اے وقت ترے جبر کی توقیر کہاں تک



اے اہلِ صفا تابکے ہے سچ کی زباں بند
اے اہلِ جفا جھوٹ کی تشہیر کہاں تک

اب دوست بنانے کا ہنر بھی ذرا سیکھیں
کی جائے مہ و نجم کی تسخیر کہاں تک

اے شہرِ انا تیرے فریبوں کے بھرم میں
آئینہ مثالوں کی ہو تحقیر کہاں تک


دو چار قدم چل کے پلٹ کر وہیں آیا
جاتا بھلا اٹھ کے ترا دل گیر کہاں تک

ہر آن کوئی مجھ میں نیا ٹوٹ رہا ہے
آخر کوئی خود کو کرے تعمیر کہاں تک







۲۹/ستمبر، ۲۰۱۳ء

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے