ناانصافی کی بدترین شکل

ہفتہ, فروری 18, 2017 عرفان وحید 0 Comments


۲۰۰۵ مین سروجنی نگر دہلی میں دھماکوں سے جلی  ہوئی گاڑیوں کا ایک منظر۔ فوٹو بشکریہ ہندوستان ٹائمز۔

جمعرات کو (یعنی ۱۶ فروری کو) دلی کے پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے ۲۰۰۵ء میں ہونے والے دلی کے سروجنی نگر، پہاڑ گنج اور کالکا جی کے سلسلےوار دھماکوں کے دو ملزمین کو گیارہ سال تک انڈر ٹرائل رکھنے کے بعد باعزت طور پر بری کردیا جبکہ ایک تیسرے ملزم کو ۱۰ سال کی سزا سنائی گئی ہے۔ ۲۰۰۵ء میں دیوالی سے ایک روز قبل ہونے والے ان تین دھماکوں میں ساٹھ افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے تھے جن میں بچے ، بوڑھے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ گرفتار شدگان تینوں ملزمین کا تعلق کشمیر سے تھا۔
بری ہونے والے ایک نوجوان رفیق شاہ کی ماں کے مطابق مذکورہ دھماکےکے دن اس کا بیٹا سری نگر میں کالج کی کلاس اٹینڈ کررہا تھا۔ وہ ان دنوں ایم اے کررہا تھا۔ رفیق کی ماں، محبوبہ یاسین کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا بالکل بے گناہ تھا۔وہ کبھی دلی آیا ہی نہیں تھا۔ ’’انہوں نے فرضی معاملے میں میرے بیٹے کے دس سال چھین لیے ۔ آخر ہمیں یہ دس سال کون واپس دے گا؟‘‘
ایسا نہیں ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہو۔ اس سے قبل بھی ایسے متعدد معاملات میں ملزمین کو عدالتوں نے بری کیا ہے۔ عامر خان کو ۱۹۹۸ء میں دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے گرفتار کیا تھا اور اس پر اُنّیس بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ ۱۴ سال بعد تمام الزامات بے بنیاد ثابت ہوئے اور اسے باعزت رہا کردیا گیا۔ ارشاد علی اور معروف قمر کو دہلی کے اسپیشل سیل نے سازش اور ہتھیار رکھنے کے جرم میں ۲۰۰۶ء میں گرفتار کیا۔ دہلی سیشن کورٹ نے الزامات ثابت نہ ہونے پر گیارہ سال بعد رہا کر دیا۔ خورشید احمد بھٹ کو ۲۰۰۵ء میں مختلف الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا اور ۲۰۱۱ء میں بری کردیا گیا۔ ارشاد احمد ملک پر دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کے ساتھ لنک ہونے کاچارج لگایا گیا اور برسوں بعد پولیس کے ذریعے لگائے گئے کسی بھی الزام کے ثابت نہ ہونے کے بعد اسے رہا کردیا گیا۔ ایاز احمد شاہ عرف اقبال کو ۲۰۰۴ء میں دہلی کے اسپیشل سیل نے پکڑا تھا۔ اقبال کے معاملے کو غیر سنجیدگی سے لینے کے لیے عدالت نے پولیس کی سخت سرزنش کی اورا قبال پرلگائے گئے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر بری کردیا۔ 
حالیہ واقعہ میں تینوں ملزمین، محمد رفیق شاہ، محمد حسین فضلی اور طارق دار، کو ۲۰۰۶ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر دہشت گردی سمیت متعدد الزامات عائد کیے گئے تھے۔ محمد رفیق شاہ ایک طالب علم تھا۔ محمد حسین فضلی دہلی میں چادریں فروخت کرتا تھا ، جبکہ طارق دار ایک کمپنی میں سیلز مین تھا۔ عدالت نے پولیس کے ذریعے لگائے گئے تمام چارج بے بنیاد ثابت ہونے پر اول الذکر اور ثانی الذکر کو بری کردیا جبکہ تیسرے ملزم طارق دار کو ۱۰ سال کی قیدکی سزا سنائی۔ چونکہ تینوں ملزمین گیارہ سال جیل میں انڈر ٹرائل رہ چکے ہیں اس لیے طارق بھی بَری قرار دیا جائے گا۔
طارق دو بچوں کا باپ ہے جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم تھا۔ اس کے گھر والوں کا الزام ہے کہ پولیس نے اسے ۱۰ نومبر کو کشمیر سے اغوا کیا تھا اور جھوٹے الزام میں پھنساکر جیل میں ڈال دیا تھا۔
پولیس کی ’مستعدی ‘ اور عدالتی ’انصاف ‘ کی یہ محض چند مثالیں ہیں، ورنہ اب بھی نہ جانے کتنے بے گناہ جیلوں کے اندر امید وبیم کے درمیان انتہائی کسمپرسی کی حالت میں انصاف کی راہ تک رہے ہیں۔ 
ہر بے گناہ کے چھوٹ جانے پر سب سے بڑا سوال یہی اٹھتا ہے کہ اگر وہ مجرم نہیں تھا تو اصل مجرم کہاں ہے؟  کیا عدالتوں کے ذریعے ملزمین کو بری کردیے جانے سے بعد بم دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات کے معاملات کا فیصلہ ہوگیا؟ اگر ہاں، تو پھر اس کا یہی مطلب یہ ہے کہ اصل مجرم آج بھی کھلے گھوم رہے ہیں  اور بے گناہوں کی آزادی کی قیمت پر،عدلیہ کے قیمتی وقت کی قیمت پر اور سماج کے امن اور سکون کی قیمت پر اپنی آزادی  کا جشن منارہے ہیں۔ کیا پولیس نے اس پورے عرصے میں اصل مجرموں کی پردہ پوشی نہیں کی؟ کیا عدالتیں ان تمام معاملات میں بری ہونے والے بے گناہ ملزمین کو ہرجانہ دلائیں گی؟ ان کے روزگار اور خاندان کی کفالت کا انتظام کریں گی؟ کیا عدالتوں کو نئے سرے سے ان تمام معاملات کو نہیں کھلوانا چاہیے جن میں تمام یا بیشتر ملزمین بری ہوجاتے ہیں ، اور اصل مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے؟ کیا پولیس اہل کاروں نے بے گناہوں کو جھوٹے، فرضی اور بے بنیاد معاملات میں پھنساکر انصاف کا قتل نہیں کیا؟ کیا ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟ کیا خاطی پولیس اہل کاروں کے خلاف سخت ترین قانون نہیں بننے چاہئیں؟
افسوس تو یہ ہے کہ فرضی انکاؤنٹروں اور فرضی معاملات میں پھنسانے والے پولیس اہل کاروں کو ایوارڈ دیے جاتے ہیں۔ دور کیوں جائیے۔ گزشتہ سال مدھیہ پردیش میں جیل سے فرار ہونے والے مبینہ دہشت گردوں کے انکاؤنٹر وں کا معاملہ اور ریاستی حکومت کا اس میں ملوث پولیس اہل کاروں کو انعامات سے سرفراز کیے جانے کا واقعہ ابھی عوامی یادداشت سے محو نہیں ہوا ہے۔ 
کہتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے اور انصاف کا قاعدہ یہ ہے کہ خواہ مجرم چھوٹ جائے لیکن بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہیے۔ بے گناہوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دینا ناانصافی کی بدترین شکل ہے۔ دہشت گردی کے واقعات کے مہلوکین کو انصاف دلانے کی صورت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ اصل مجرموں کو عدالتیں قرار واقعی سزا دیں۔ساتھ ہی ریاستی نظام کے ہاتھوں گناہِ ناکردہ کی پاداش میں جبر ڈھونے والے معصوموں کے معاشی و سماجی مقام کی بازیابی کا سوال بھی عدلیہ و مقننہ سے مناسب حل کامنتظرہے۔

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے