کس قدر بے اماں ہے شہرِمراد
اف یہ وحشت، یہ آگہی کا فساد
کس قدر بے اماں ہے شہرِمراد
دادِ بیداد جب ملے بیداد
ہے یہی انقلاب کی بنیاد
بیٹھا کب ہے دوانہ توڑ کے پاؤں
اک سفر اور، مرے جنوں ایجاد!
اب کے سرخ آندھیوں کی بن آئی
بجھتے جاتے ہیں اب کے شعلہ نژاد
زخم ہیں کائنات کے خنداں
جسَدِ کن سے گِریہ کن ہے مواد
سیلِ وحشت کو اب سنبھال ذرا
کیوں اٹھائی تھی شہر کی بنیاد
دل کہ صدیوں سے اک خرابہ تھا
تم جو آئے تو ہوگیا آباد
عمر گزری ہے سوچتے کہ کہاں
عمر نے کردیا ہمیں برباد
منزلیں دھول ہوگئیں پیچھے
آگیا ہوں ورائے کوئے مراد
آپ چپ ہیں، بڑا کرم عرفان
آپ کی چپ بھی ہے ہنر کی داد
0 comments:
تبصرہ کیجیے