عشق کو گیسوئے پیچاک سے باندھا گیا ہے

منگل, دسمبر 19, 2017 عرفان وحید 0 Comments



عشق کو گیسوئے پیچاک سے باندھا گیا ہے
اور پھر گردشِ افلاک سے باندھا گیا ہے


ایک آنسو تری پوشاک سے باندھا گیا ہے
یا ستارا کوئی افلاک سے باندھا گیا ہے

پہلے باندھا گیا ادراک سے ہونے کا غرور 
پھر بدن طُرّۂ پیچاک سے باندھا گیا ہے

خاک اڑاتا ہوں میں تا عمر نبھانے کے لیے
ایک رشتہ جو مرا خاک سے باندھا گیا ہے

جمع ہوتے ہیں سبھی صید تماشے کے لیے
کسی صیاد کو فتراک سے باندھا گیا ہے

کشتِ وحشت ہو جسے دیکھنی آئے دیکھے
ہر بگولہ خس و خاشاک سے باندھا گیا ہے

پھر وہی حرفِ تمنا ہے وہی ساعتِ درد
پھر ہمیں دیدۂ نمناک سے باندھا گیا ہے

اب کسی کوزہ گری کی نہیں حاجت کہ مجھے
تا فنا ایک اسی چاک سے باندھا گیا ہے

ہم گنہ گاروں کی ہے آخری امید وہی
عہد اک جو شہِ لولاک سے باندھا گیا ہے

کجا یہ شوخ ادا دنیا، کجا میں عرفانؔ
مردِ سادہ زنِ بیباک سے باندھا گیا ہے

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے