غزل - ہے فسانہ جو حقیقت کہیں بن جائے نہ
منتظر جذبۂ بیدار یہ دکھلائے نہ کچھ
ہے فسانہ جو حقیقت کہیں بن جائے نہ کچھ
آ پھر اے گردشِ افلاک فقط ایک ہی بار
کچھ تو ایسی بنے مجھ پرکہ جو بن پائے نہ کچھ
نام بدنام نہ ہو؟وہ بھی وفا میں؟ مشکل
راہِ الفت میں بھی آئے کوئی، کہلائے نہ کچھ؟
مشکلوں سے ہوا خاموش ابھی قلبِ حزیں
چارہ گر حرفِ تشفی کہیں کہہ جائے نہ کچھ
اس سے اب کوئی تعلق نہیں میرا نہ سہی
ہاں مگر داغِ سویدا کہیں مٹ جائے نہ کچھ
ہے سفر راہِ تمنا کا تو کیسی ہے تھکان
اس میں عرفانؔ پڑاؤ کی سی چیز آئے نہ کچھ
1997
0 comments:
تبصرہ کیجیے