غزل - آہ بھی دل سے نہ نکلے
آہ بھی دل سے نہ نکلے، چشم تر کوئی نہ ہو
گر خوشی حاصل نہ ہو تو نوحہ گر کوئی نہ ہو
ہو جنوں کی کیفیت طاری درو دیوار پر
"اس ملامت سے تو بہتر ہے کہ گھر کوئی نہ ہو"
زنگی میں ایک ایسا دور بھی آجائے ہے
لاکھ تدبیریں ہوں لیکن کارگر کوئی نہ ہو
جھومتا جاتا ہوں میں فرطِ الم کے باوجود
جیسے مجھ کو اپنے ہی غم کی خبر کوئی نہ ہو
جہلِ دانش کا اندھیرا چھارہا ہے چارسو
کیا خبر کل شہر بھر میں دیدہ ور کوئی نہ ہو
کب سے ہوں عرفانؔ اپنی بے نوائی کا قتیل
اے خدا مجھ سا بھی یاں پر بے ہنر کوئی نہ ہو
1997
0 comments:
تبصرہ کیجیے