غزل - اہل فن ایک عجب کام لیے بیٹھے ہیں
اہل فن ایک عجب کام لیے بیٹھے ہیں
روز سر پر نیا الزام لیے بیٹھے ہیں
جامۂ حرف سے جذبے مرے محروم سہی
لب ِ خاموش بھی پیغام لیے بیٹھے ہیں
رنج و غم، آہ و فغاں اور مصائب کیا کیا
حاصلِ گردشِ ایّام لیے بیٹھے ہیں
آخرش مل ہی گیا ہمیں منزل کا سراغ
آبلہ پائی کا انعام لیے بیٹھے ہیں
ہائے کیسی یہ ستم کوشیٔ ساقی ہے کہ آج
بھری محفل میں تہی جام لیے بیٹھے ہیں
آنکھ میں روز نئی صبح کے منظر عرفانؔ
دل کی خاطر یہ نیا کام لیے بیٹھے ہیں
1998
0 comments:
تبصرہ کیجیے