غزل - اہل فن ایک عجب کام لیے بیٹھے ہیں

منگل, نومبر 08, 2005 عرفان وحید 0 Comments

اہل فن ایک عجب کام لیے بیٹھے ہیں
روز سر پر نیا الزام لیے بیٹھے ہیں

جامۂ حرف سے جذبے مرے محروم سہی
لب ِ خاموش بھی پیغام لیے بیٹھے ہیں

رنج و غم، آہ و فغاں اور مصائب کیا کیا
حاصلِ گردشِ ایّام لیے بیٹھے ہیں

آخرش مل ہی گیا ہمیں منزل کا سراغ
آبلہ پائی کا انعام لیے بیٹھے ہیں

ہائے کیسی یہ ستم کوشیٔ ساقی ہے کہ آج
بھری محفل میں تہی جام لیے بیٹھے ہیں

آنکھ میں روز نئی صبح کے منظر عرفانؔ
دل کی خاطر یہ نیا کام لیے بیٹھے ہیں

1998

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے