میں آبرو ہوں
قارئین، میں آبرو ہوں۔ جی ہاں وہی آبرو جس کے دم سے کائنات کی حسین تصویر میں رنگ ہے،جو مردوں کی شان ہے اور عورتوں کا زیور۔ وہی آبرو جس کی خاطر غیور اقوام اپنا خون تک بہانے کے لیے تیار رہتی ہیں، اور جو ایک بار رخصت ہو جائے تو واپس نہیں آتی۔ حالیہ برسوں میں وطن عزیز میں میرے ساتھ بہت برا سلوک ہوا ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
ابھی چند ہفتوں قبل دارالسلطنت دہلی میں کچھ من چلوں نے مجھ پر ہاتھ ڈالا جب میری ایک بے بس بہن سفر کر رہی تھی اور چلتی بس میں میری روح کو تار تار کر ڈالا۔اتنا ہی نہیں انہوں نے میری اس بہن کو اتنی بری طرح زدو کوب کیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا سکی اور چند دنوں کے بعد ملک عزیز سے دور سنگاپور کے شفاخانے میں جاں بحق ہو گئی۔
اس دل دوز سانحے سے ہر وہ فرد خون کے آنسو رویا جو غیرت مند تھا اور جب اضطراب نا قابل ِبرداشت ہو گیا تو نوجوانوں کا ایک جمِّ غفیرسڑکوں پر سراپا احتجاج بن کر اتر آیا اور انتظامیہ اور سرکارکو آڑے ہاتھوں لیا۔ ذرائع ابلاغ نے اس خبر کو اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لیے خوب استعمال کیا۔میں نے اس احتجاج میں سیاسی قائدین اور مذہبی رہنمأوں کو بھی اپنی روٹیاں سینکنے کا مضحکہ خیز منظر دیکھا۔ تاہم میری آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ میرے ساتھ بد سلوکی کا سلسلہ نہیں تھما اور راجدھانی دہلی میں اس احتجاج کے دوران بھی میری عصمت کے لعل تابدار لٹنے کے بارہا واقعات ہو گئے۔
آہ۔ یہ وہی وطن عزیز ہے جس نے اپنی خواتین کی سماجی حالت پر دیگر اقوام عالم پر ہمیشہ اظہار فخر کیا ہے۔ کیا سال گذشتہ میں آبرو ریزی کے واقعات اس تفاخر اور امتیاز کو خاک کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق سال ۲۰۱۱میں عصمت دری کے کل ۲۴۲۰۶ واقعات کی رپورٹ درج کرائی گئی۔ ان میں مجرموں کو سزا دہی کا تناسب ایک تہائی سے بھی کم ( ۲۶ فی صد) ہے۔ افسو س میری پامالی کا مسئلہ اتنا عام ہے کہ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی ہائی کمشنر کو کہنا پڑا کہ آبرو ریزی ہندوستان کا "قومی مسئلہ" ہے۔
عزیز قارئین، ایسا نہیں کہ دلی کا واقعہ اپنے آپ میں بے نظیر واقعہ تھا ۔ اگر یہ واقعہ کشمیر یا منی پور کے کسی گمنام گوشے میں ہوا ہوتا تو بمشکل کسی مقامی اخبار کی شہ سرخی بن پاتا۔ ۱۹۹۱ میں کنان پوش پورہ (کشمیر) میں مبینہ طور پر فوج کے ذریعے پچاس سے بھی زائدمیری بہنوں اور ماؤں کی آبرو ریزی کی گئی ۔ ۲۰۰۹ کاشوپیاں (کشمیر) کا واقعہ بھی ابھی قارئین کی یاد داشت سے محو نہیں ہو اہوگا۔ تاہم راجدھانی دہلی میں ہونے والے احتجاجات میں مجھے امید کی ایک کرن نظر تو آتی ہے کہ اجتماعی شعور میں ابھی زندگی کی رمق باقی ہے۔ لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ تبدیلی بھی سیاست، تشدد، سطحی نعرے بازی، قانونی نقائص اور انتظامیہ کی سرد مہری کی نذر نہ ہو جائے۔
کاش تاریخ پیچھے لوٹ سکتی تو میں آپ کو وہ دکھا تی جو چشمِ فلک نے بھی بے یقینی اور تّحیر سے دیکھا ہو گا۔ شاہ مدینہؐ کا دربار عام سجا ہے۔ صحابہ کرام ذاتِ رسالت مآب ؐسے کسب ِفیض کر رہے ہیں۔ اسی اثنا میں حضرت ماعز بن مالک اسلمی نبی کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتے ہیں یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے (زنا کا مرتکب ہوگیا ہوں)۔ آپؐ (مجھ پر حد جاری کرکے) مجھے پاک کردیجیے۔ لیکن آپ صلّی اللہ علیہ وسلم ماعز کو واپس کردیتے ہیں۔ دوسرے روز پھر حضرت ماعز وہی عرض لے کر حاضر خدمت ہوتے ہیں اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم دوبارہ انھیں واپس کردیتے ہیں۔ احساس ندامت سے چور ماعز بن مالک پھر تیسرے دن حاضر ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ان کی قوم سے دریافت کرتے ہیں آیا ماعز کی عقل میں کوئی فتور تو نہیں۔ اہل قوم نے کہا کہ ان میں کوئی کمی نہیں ہے اور نہ ان کی عقل میں کوئی فتور ہے۔
جب ماعز چوتھے روز آتے ہیں تو ان کے لیے گڑھا کھودا جاتا ہے اور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انھیں سنگسارکردیاجاتا ہے۔
قارئین ، آپ شاید سوچیں گے کہ ماعز تو مرد تھے اور عرب مردوں سے ایسی بہادری کا مظاہرہ اور احساس گناہ سے مغلوب ہو کر ایسا کر گزرنا کوئی خلاف عقل تو نہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اس سے بھی حیرت ناک منظر دیکھا ہے جب ایک غامدیہ عورت حاضر خدمت ہوئی اوررسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم سے حد جاری کرنے کی درخواست کی۔ رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم نے ان کو واپس کردیا۔ دوسرے دن وہ پھر آئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے کیوں واپس کرتے ہیں؟ شاید آپ مجھے ایسے ہی لوٹا رہے ہیں جیسے آپ نے ماعز کو واپس کردیا تھا۔ اللہ کی قسم میں تو گناہ کے نتیجہ میں حاملہ ہوچکی ہوں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی چلی جاؤ یہاں تک کہ بچہ پیدا ہوجائے۔ چند دنوں بعد ایک کپڑے میں بچہ کو لپیٹے ہوئے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پھر حاضر ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں بچہ پیدا ہوگیا ہے۔
آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، ابھی نہیں۔ جا ؤ اور اس کو دودھ پلا ؤ یہاں تک کہ تو اس کا دودھ چھڑالے۔ چنانچہ وہ پھر بچہ کو لے کر حاضر خدمت ہوئی اس حال میں کہ اس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا بھی تھا۔ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم میں اس کا دودھ چھڑا چکی ہوں اور اب یہ روٹی بھی کھانے لگا ہے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچہ مسلمانوں میں سے ایک شخص کو (پرورش کرنے کے لیے) دے دیا۔ اس کے بعد سنگساری کا حکم دیا تو لوگوں نے سنگسار کرنا شروع کردیا۔ ایک صحابی کے چہرے پر خون کے چھینٹے گرگئے۔ انہوں نے غامدیہ کو سخت الفاظ کہے۔ جب نبی صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا ۔ٹھہرو (اسے سخت سست نہ کہو) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، غامدیہ نے بلاشبہ ایسی توبہ کی ہے کہ اگر کوئی (ظلماً) ٹیکس والا بھی ایسی توبہ کرے تو اس کی مغفرت ہوجائے گی۔
قارئین ، غور کیجیے ۔ ماعز اور غامدیہ سے گناہ سر زدہوگیا۔ نہ کوئی دیکھنے والا تھا، نہ شکایت کرنے والا، نہ پکڑنے والا ۔ وہ خود سر عام دردناک سزا پانے کے لیے حاضر ہوگئے، محض اس تصور سے کہ سزا انہیں گناہ سے پاک کردے گی اور ان کی عاقبت سنور جائے گی۔ہے کوئی ایسی اورنظیر اس دنیا میں؟ ہے کوئی ایسا نظام جو لوگوں میں ایسی صالحیت پیدا کر سکے جو سزا کا خوف نہیں بلکہ جرم کے لیے احساس انفعال پیدا کرے اور مجرم خود ازراہ ندامت اپنی مکافات عمل کے لیے حاضر ہو جائے؟ اگر متبادل نہیں ہےتو پھر کیجیے اسی قانون اور نظام کو نافذ۔ ورنہ میرے لٹنے پر یہ مصنوعی احتجاج اور ماتم بند کیجیے۔
ابھی چند ہفتوں قبل دارالسلطنت دہلی میں کچھ من چلوں نے مجھ پر ہاتھ ڈالا جب میری ایک بے بس بہن سفر کر رہی تھی اور چلتی بس میں میری روح کو تار تار کر ڈالا۔اتنا ہی نہیں انہوں نے میری اس بہن کو اتنی بری طرح زدو کوب کیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لا سکی اور چند دنوں کے بعد ملک عزیز سے دور سنگاپور کے شفاخانے میں جاں بحق ہو گئی۔
اس دل دوز سانحے سے ہر وہ فرد خون کے آنسو رویا جو غیرت مند تھا اور جب اضطراب نا قابل ِبرداشت ہو گیا تو نوجوانوں کا ایک جمِّ غفیرسڑکوں پر سراپا احتجاج بن کر اتر آیا اور انتظامیہ اور سرکارکو آڑے ہاتھوں لیا۔ ذرائع ابلاغ نے اس خبر کو اپنی ٹی آر پی بڑھانے کے لیے خوب استعمال کیا۔میں نے اس احتجاج میں سیاسی قائدین اور مذہبی رہنمأوں کو بھی اپنی روٹیاں سینکنے کا مضحکہ خیز منظر دیکھا۔ تاہم میری آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ میرے ساتھ بد سلوکی کا سلسلہ نہیں تھما اور راجدھانی دہلی میں اس احتجاج کے دوران بھی میری عصمت کے لعل تابدار لٹنے کے بارہا واقعات ہو گئے۔
آہ۔ یہ وہی وطن عزیز ہے جس نے اپنی خواتین کی سماجی حالت پر دیگر اقوام عالم پر ہمیشہ اظہار فخر کیا ہے۔ کیا سال گذشتہ میں آبرو ریزی کے واقعات اس تفاخر اور امتیاز کو خاک کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق سال ۲۰۱۱میں عصمت دری کے کل ۲۴۲۰۶ واقعات کی رپورٹ درج کرائی گئی۔ ان میں مجرموں کو سزا دہی کا تناسب ایک تہائی سے بھی کم ( ۲۶ فی صد) ہے۔ افسو س میری پامالی کا مسئلہ اتنا عام ہے کہ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی ہائی کمشنر کو کہنا پڑا کہ آبرو ریزی ہندوستان کا "قومی مسئلہ" ہے۔
عزیز قارئین، ایسا نہیں کہ دلی کا واقعہ اپنے آپ میں بے نظیر واقعہ تھا ۔ اگر یہ واقعہ کشمیر یا منی پور کے کسی گمنام گوشے میں ہوا ہوتا تو بمشکل کسی مقامی اخبار کی شہ سرخی بن پاتا۔ ۱۹۹۱ میں کنان پوش پورہ (کشمیر) میں مبینہ طور پر فوج کے ذریعے پچاس سے بھی زائدمیری بہنوں اور ماؤں کی آبرو ریزی کی گئی ۔ ۲۰۰۹ کاشوپیاں (کشمیر) کا واقعہ بھی ابھی قارئین کی یاد داشت سے محو نہیں ہو اہوگا۔ تاہم راجدھانی دہلی میں ہونے والے احتجاجات میں مجھے امید کی ایک کرن نظر تو آتی ہے کہ اجتماعی شعور میں ابھی زندگی کی رمق باقی ہے۔ لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ تبدیلی بھی سیاست، تشدد، سطحی نعرے بازی، قانونی نقائص اور انتظامیہ کی سرد مہری کی نذر نہ ہو جائے۔
کاش تاریخ پیچھے لوٹ سکتی تو میں آپ کو وہ دکھا تی جو چشمِ فلک نے بھی بے یقینی اور تّحیر سے دیکھا ہو گا۔ شاہ مدینہؐ کا دربار عام سجا ہے۔ صحابہ کرام ذاتِ رسالت مآب ؐسے کسب ِفیض کر رہے ہیں۔ اسی اثنا میں حضرت ماعز بن مالک اسلمی نبی کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتے ہیں یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے (زنا کا مرتکب ہوگیا ہوں)۔ آپؐ (مجھ پر حد جاری کرکے) مجھے پاک کردیجیے۔ لیکن آپ صلّی اللہ علیہ وسلم ماعز کو واپس کردیتے ہیں۔ دوسرے روز پھر حضرت ماعز وہی عرض لے کر حاضر خدمت ہوتے ہیں اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم دوبارہ انھیں واپس کردیتے ہیں۔ احساس ندامت سے چور ماعز بن مالک پھر تیسرے دن حاضر ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ان کی قوم سے دریافت کرتے ہیں آیا ماعز کی عقل میں کوئی فتور تو نہیں۔ اہل قوم نے کہا کہ ان میں کوئی کمی نہیں ہے اور نہ ان کی عقل میں کوئی فتور ہے۔
جب ماعز چوتھے روز آتے ہیں تو ان کے لیے گڑھا کھودا جاتا ہے اور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انھیں سنگسارکردیاجاتا ہے۔
قارئین ، آپ شاید سوچیں گے کہ ماعز تو مرد تھے اور عرب مردوں سے ایسی بہادری کا مظاہرہ اور احساس گناہ سے مغلوب ہو کر ایسا کر گزرنا کوئی خلاف عقل تو نہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اس سے بھی حیرت ناک منظر دیکھا ہے جب ایک غامدیہ عورت حاضر خدمت ہوئی اوررسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم سے حد جاری کرنے کی درخواست کی۔ رسول خدا صلّی اللہ علیہ وسلم نے ان کو واپس کردیا۔ دوسرے دن وہ پھر آئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے کیوں واپس کرتے ہیں؟ شاید آپ مجھے ایسے ہی لوٹا رہے ہیں جیسے آپ نے ماعز کو واپس کردیا تھا۔ اللہ کی قسم میں تو گناہ کے نتیجہ میں حاملہ ہوچکی ہوں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی چلی جاؤ یہاں تک کہ بچہ پیدا ہوجائے۔ چند دنوں بعد ایک کپڑے میں بچہ کو لپیٹے ہوئے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پھر حاضر ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں بچہ پیدا ہوگیا ہے۔
آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، ابھی نہیں۔ جا ؤ اور اس کو دودھ پلا ؤ یہاں تک کہ تو اس کا دودھ چھڑالے۔ چنانچہ وہ پھر بچہ کو لے کر حاضر خدمت ہوئی اس حال میں کہ اس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا بھی تھا۔ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ وسلم میں اس کا دودھ چھڑا چکی ہوں اور اب یہ روٹی بھی کھانے لگا ہے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچہ مسلمانوں میں سے ایک شخص کو (پرورش کرنے کے لیے) دے دیا۔ اس کے بعد سنگساری کا حکم دیا تو لوگوں نے سنگسار کرنا شروع کردیا۔ ایک صحابی کے چہرے پر خون کے چھینٹے گرگئے۔ انہوں نے غامدیہ کو سخت الفاظ کہے۔ جب نبی صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا ۔ٹھہرو (اسے سخت سست نہ کہو) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے، غامدیہ نے بلاشبہ ایسی توبہ کی ہے کہ اگر کوئی (ظلماً) ٹیکس والا بھی ایسی توبہ کرے تو اس کی مغفرت ہوجائے گی۔
قارئین ، غور کیجیے ۔ ماعز اور غامدیہ سے گناہ سر زدہوگیا۔ نہ کوئی دیکھنے والا تھا، نہ شکایت کرنے والا، نہ پکڑنے والا ۔ وہ خود سر عام دردناک سزا پانے کے لیے حاضر ہوگئے، محض اس تصور سے کہ سزا انہیں گناہ سے پاک کردے گی اور ان کی عاقبت سنور جائے گی۔ہے کوئی ایسی اورنظیر اس دنیا میں؟ ہے کوئی ایسا نظام جو لوگوں میں ایسی صالحیت پیدا کر سکے جو سزا کا خوف نہیں بلکہ جرم کے لیے احساس انفعال پیدا کرے اور مجرم خود ازراہ ندامت اپنی مکافات عمل کے لیے حاضر ہو جائے؟ اگر متبادل نہیں ہےتو پھر کیجیے اسی قانون اور نظام کو نافذ۔ ورنہ میرے لٹنے پر یہ مصنوعی احتجاج اور ماتم بند کیجیے۔
بشکریہ ماہنامہ رفیق منزل، نئی دہلی ص: 34
0 comments:
تبصرہ کیجیے