توہین اسلام کا اصل مرتکب کون؟

جمعرات, ستمبر 27, 2012 عرفان وحید 0 Comments

پوری مسلم دنیا خاص طور پر مشرق وسطی ان دنوں مشتعل ہے۔ غصے کی اس لہر کے نتیجے میں نہ صرف امریکی اور اسرائیلی پرچم جلانے کے واقعات رونما ہوئے بلکہ یہ بہت سے معصوم لوگوں کی ہلاکت، بشمول لیبیا میں امریکہ کے سفیر کرسٹوفر سٹیونس کے قتل، کا سبب بھی بنی۔ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مسلمان اس قدر غصہ اور نفرت کیوں محسوس کرتے ہیں؟ کیا امریکہ یا اسرائیل نے مکہ مکرمہ پر ایٹم بم گرادیا؟ کیا پوپ بینیڈکٹ شانزدهم نےاپنے پیشرو پوپ اربن دوئم کی طرح اسلام کے خلاف صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا؟ جواب ہے: نہیں۔ تو، آخر اس قدر غصہ کیوں؟ اور تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ غصہ ایک فلم، بلکہ خصوصا ایک ویڈیو بنام “مسلمانوں کی بے گناہی، کی وجہ سے ہے۔ یہ فلم ایک 55 سالہ بدنام اور شورہ پشت شخص نکولا نے نجی طور پر بنائی ہے جو 2010 ء میں ایک بینک فراڈ سمیت بہت سے دیگر جرائم کا ارتکاب کر چکا ہے۔

فلم یقینادل آزار ہے۔ نکولا نے کوشش کی ہے کہ وہ تاریخ کی سب سے زیادہ منفی فلم بناسکے۔ فلم میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سراسر غلط تصویر پیش کی گئی ہے ، باوجو اس حقیقت کے کہ اسلام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کشی کی اجازت نہیں ہے ۔ انہیں عورتوں کا دلدادہ اور مذہبی جعل ساز بتایا گیا ہے، نعوذباللہ۔ کیا یہ فلم حقیقت کی نمائندگی کرتی ہے؟ نہیں۔ تو کیاہمیں ناراض ہونا چاہئے؟ بالکل بھی نہیں۔کیوں نہیں؟ اس کا جواب ینے کے لئے، ہمیں ایک اور گہرے سوال کا تجزیہ کرنا ہوگا ۔ یہ سوال ہے: توہین اسلام کا اصل مرتکب کون ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

آخر کیسے صرف ایک مجرم کی طرف سے تیار کی گئی یوٹیوب ویڈیونے پوری مسلم دنیا میں تہلکہ مچادیا؟ میں نے نوبل انعام یافتہ محمد یونس سے پوچھا۔ انہوں نے اس سوال کا جواب سوال میں یوں دیا: “کب 15 ملین افراد کی زندگی 1.3 بلین افراد کی زندگی سے زیادہ قدر و قیمت کی حامل ہوتی ہے؟” اس طرح کا حسابی قسم کا جواب ملنے پر میں ان کا اشارہ نا سمجھ سکا۔ یونس نے پھرکہا، “ٹھیک ہے، اگر1.6 ارب افراد اچانک غائب ہو جائیں تو دنیا کو کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا تاہم اگر 14 ملین افراد غائب ہو جائیں تو دنیا بڑے خسارے کا شکار ہو گی۔” یونس کی اس تشبیہ کو سمجھنےمیں مجھے چند گھنٹے لگ گئے ۔

یونس نے در اصل مسلمانوں اور یہودیوں کی کل تعداد کا موازنہ کیا تھا۔ مسلمانوں کی کل تعداد1.6 ارب ہے اور یہودیوں کی کل تعداد 14 ملین ہے۔ اس وقت دنیا کی کل آبادی 6.8 ارب سے زیادہ ہے۔ ان میں، 2.1ارب عیسائی ، 1.6 ارب اسلام کے پیروکار اور صرف 14 ملین یہودی ہیں۔یعنی دنیا کی کل آبادی کا 21 فی صد مسلمان ہیں، جبکہ 0.2 فیصد یہودی ہیں۔ ریاضی کے ہر قسم کے مسئلہ میں 21 فی صد 0.2 فیصد سے ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے۔ تو اگرعالمی آبادی کا 21 فیصد اچانک لاپتہ ہو جائےتو بمقابلہ 0.2 فیصد آبادی کے غائب ہونےکے دنیا کو کہیں زیادہ تباہ کن بحران کا سامنا کرنا ہو گا۔ یہ جاننے کے بعد میں سوچ رہا تھا کہ آخر یونس کیا نکتہ پیش کر رہے تھے۔ تبھی مجھے ایک اور نوبل انعام یافتہ، عبد السلام کی یاد آئی۔

۱۹۸۰میں عبدالسلام نے اپنی کتاب گیج یونیفکیشن آف فنڈامنٹل فورسز، پیش کرکے ریاضی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مسلمانوں کو پسماندگی کی انتہائی سطح سے اوپر اٹھانے کی طرف پھر سے بااختیار بنانےکی ایک سعی کی۔ انہوں نے اس کتاب میں مسلمانوں کے محض مذہبی تعلیم پر زور ، اور یہود و نصاری سےتنفر کی پالیسی کا مذاق اڑایا تھا اور ایسا کرنے کے نتائج کے بارے میں مسلمانوں کومتنبہ کیا تھا۔ یونس کا یو ٹیوب ویڈیو پر مسلمانوں کے پر تشدد ردعمل پر مقداری تجزیہ اس قدر شاندار ہے کہ عبدالسلام کی طرح اس تبصرہ میں بھی طنز کی زیریں لہریں محسوس کی جا سکتی ہیں۔ آئیے اسے تفصیل سے دیکھتے ہیں:

اب تک مجموعی طور پر 830 لوگوں کو نوبل انعام دیا جا چکا ہے۔ ان میں یہودی افراد کی تعداد 185 ہے، اور مسلمان نوبل لارئٹ کی تعداد 10 ہے۔ میری ریاضی کے مطابق،ہر بیس میں سے ایک لارئٹ مسلمان ہونا چاہیے تھا۔ اگر ایساہوتا تو 830 میں سے مسلمانوں کو کم از کم 166 نوبل انعامات مل چکے ہو تے۔ تاہم، حقیقت ان توقعات سے بعید ترہے۔ مسلمانوں  نے 166 انعام حاصل کیے اور نہ 100 بلکہ محض 10 نوبل انعامات کے حق داربن پائے! دوسری طرف، اعداد و شمار کے اسی تناسب کےمطابق یہودیوں کو زیادہ سے زیادہ 3 یا 4 نوبل انعام ہی ملنے چاہئیں تھے۔ لیکن ان کے لارئٹ کی تعداد 185 سے بھی متجاوز ہے۔ اس حقیقت کا احساس ہونے پر، میں فوری طور پر یونس کی تشبیہ سمجھ گیا، اور بحیثیت ایک مسلمان میری پیشانی احساس ناکامی و ندامت سے عرق آلود ہو گئی۔

سوال واضح ہے۔ مسلمان کیا کر رہے ہیں؟ مشرق وسطی کو دیکھیے۔ پاکستان یا بنگلہ دیش، یا کسی بھی دوسرے مسلمان ملک کو دیکھیے، آپ کو جواب مل جائے گا۔ ان کا نعرہ دیکھیے : اوباما اوباما، ہم سب ہیں اسامہ۔

بقول ڈاکٹر ڈینیل کاباٹ ، جو ایک نظری طبیعیات اور علم ہیئت کے سائنس دان ہیں اور جن کے ساتھ میں طبیعیات کی ایک کتاب پر تعاون کر رہا ہوں۔
مجھے نہیں لگتا کہ یہ مسلمان ہیں ۔ یہ تو اسلام کے پیٹر پین ہیں: وہ چھوٹے بچے جنہوں نےبڑے ہونے سے انکار کر دیا ہے۔

مشرق وسطی، افریقہ اور پاکستان میں میرے کچھ مسلمان بھائیوں نے کرسٹوفر سٹیونس کے قتل کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے اخبارات کو لکھا: سٹیونس کا قتل ان عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے ایک سبق اور انتقام ہے جو اس فلم کی حمایت کرتے ہیں۔ مجھے سخت اختلاف ہے۔ اس لیے نہیں کہ مجھے یہ فلم پسند ہےبلکہ اس لیے کہ مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ نکولا جیسی مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ حقیقت سے بعید فلموں سے کیا پیغام دے رہے ہیں۔ وہ نام نہاد مسلمان جنہوں نے سٹیونس اور دیگر لوگوں کو قتل کیا ہے سراسر غلط ہیں، کیونکہ قتل انتقام کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔ اصل انتقام کے لیے ہمیں آئزک نیوٹن، البرٹ آئنسٹائن، ولیم شیکسپیئر، یا نیل آرمسٹرونگ کے پائے کے غازی پیدا کرنے ہوں گے جو علم و فن کے میدان میں لوہا لے سکیں۔ معصوم لوگوں کو قتل کرنے کے بجائے، چاند پر سائنسدان  بھیجیے، ہر شہر میں آکسفورڈ اور ہارورڈ جیسےتعلیمی ادارے قائم کیجیے، تحقیق میں سرمایہ کاری کیجیے۔ایڈز اور کینسر جیسے لا علاج امراض کا علاج ڈھونڈیے۔ اور ہر سال زیادہ سے زیادہ نوبل انعام حاصل کیجیے۔

تاہم، تحقیق میں وقت اورسرمایہ کاری کرنے کے بجائے بہت سے نام نہاد مسلمان زیادہ سے زیادہ عیسائیوں اور یہودیوں کو انتقاماقتل کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ غلط حکمت عملی ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر، وہ ریاضی، سائنس، فن اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے جا رہے ہیں۔ عیسائیوں اور یہودیوں کو ان میدانوں میں شکست دینا سب سے بڑا انتقام ہو گا۔ مت بھولیں کہ قتل یا دہشت گرد انہ حملے سے کسی کو بھی شکست نہیں دی جا سکتی۔ مسلمان اس جنگ کو ہٹلر کا طریقہ اپنا کر نہیں جیت سکتے خواہ وہ کتنے ہی کرسٹوفر سٹیونس کو قتل کر دیں یا کتن ہی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو تباہ کردیں۔ 11 ستمبر، 2001 کی طرح، اسلام کی تاریخ میں تاریک ترین دن 12 ستمبر، 2012 ہے۔ کون جیتا؟ ،نکولا۔ ایک مجرم جس نے جھوٹ کی بنیاد پر فلم بنائی۔ امریکہ یا اسرائیل نے اس مجرم کو دنیا بھر میں مشہور و معروف نہیں بنایا بلکہ یہ اسلام ہی کے پیٹر پین ہیں جنہوں نے اسے جیمز کیمرون سے بھی بلند ترشہرت کے بام پر بٹھا دیا۔

اسلام کے پیٹر پینز کو عقل کے ناخن لینے ہوں گے اس سے سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔




مصنف راشد الباری، محمد یونس کے  سوانح نگار ہیں۔  حال ہی میں ان کی کتاب” دیہی سماجی کاروباری ماڈل: پرولتاریہ انقلاب کے لئے ایک منشور” منظر عام پر آئی ہے۔

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے