غزل۔ ہر چند یہاں خیر کا خواہاں بھی وہی ہے
ہر چند یہاں خیر کا خواہاں بھی وہی ہے
پر آگ لگانے میں نمایاں بھی وہی ہے
وہ انفُس و آفاق میں بُرہان کی صورت
افلاک کے پردوں سے نمایاں بھی وہی ہے
تنہائی کے آسیب سے اب کون بچاِئے
جو شہر ہے آباد، بیاباں بھی وہی ہے
بربادیٔ گلشن کا جو سامان بنا تھا
بربادیٔ گلشن پہ 'پشیماں بھی وہی ہے
رسوا بھی ہمیں اس نے سرِ بزم کیا تھا
اس کارِ سیاست پہ پشیماں بھی وہی ہے
اس چاند کے ہی عکس سے پانی میں تلاطم
اور اپنی ادا دیکھ کے حیراں بھی وہی ہے
تطہیرِ سیاست کا ہے دعویٰ بھی اُسی کو
تنقیدِ حکومت سے گریزاں بھی وہی ہے
یہ آئنہ خانہ بھی ہے عرفانؔ اُسی کا
پسِ آئنہ انگشت بدنداں بھی وہی ہے
۲۷۔ ستمبر، ۲۰۱۳ء
0 comments:
تبصرہ کیجیے