اسلام اور آنٹرپرینیورشپ

پیر, فروری 01, 2016 عرفان وحید 0 Comments


آنٹرپرینیورشپ ان عوامل میں سے ایک ہے جو کسی فرد بلکہ ملک کی معاشی صورت حال کو تبدیل کرسکتی ہے۔ اس کے ذریعے بہت سے افراد برسر روزگار ہو سکتے ہیں اوربہت سے افراد کو روزگار مہیا کیا جا سکتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اسلام میں بیع مبرور ، کاروبار، تجارت یا آنٹرپرینیورشپ پر بہت زور دیا گیا ہے ۔  


انگریزی لفظ آنٹرپرینیورشپ فرانسیسی entreprende اور جرمن unternehmen سے مشتق ہے یہ دونوں الفاظ مترادف ہیں اور ان کے معنی ہیں کسی کام کا بیڑا اٹھانا یا ذمہ لینا(undertake)۔  اردو میں بعض مصنفین نے اس کے لیے ’کارجو‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے تاہم اس مضمون میں ہم انگریزی لفظ آنٹرپرینیورسے کام چلائیں گے۔ چنانچہ لغوی اعتبار سے آنٹرپرینیور کسی ایسے کام کا بیڑا اٹھاتا ہے جو دوسرے لوگ نہیں اٹھاتے۔ماہرین آنٹرپرینیورشپ کے مکتبہ ہائے فکر کو تین کلیدی علمی روایات میں تقسیم کرتے ہیں: آسٹریائی، شکاگو اور جرمن ۔ آسٹریائی مکتب فکر کے حامل یہ مانتے ہیں کہ آنٹرپرینیور میں مواقع کو شناخت کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت ہونی چاہیے؛ شکاگو مکتب فکر کے مویدین خطرات اور غیر یقینی حالات سے جوجھنے پر زور دیتے ہیں، جبکہ جرمن مکتب فکر کے حامی نئے تصوارات کے باہم اتصال و امتزاج اور تخلیقیت و جدت پر مبنی مسماری پر یقین رکھتے ہیں۔ بحیثیت  کلی، ان مکتبہ ہائے فکر سے ایک تعریف یہ بنتی ہے کہ آنٹرپرینیور وہ ہوتا ہے جو مواقع کو دستیاب وسائل کے اتصال کے ذریعے معاشی خطرات اور غیر یقینی حالات میں استعمال کرنے کا بیڑا اٹھائے۔ حالیہ برسوں میں اصطلاح آنٹرپرینیورشپ کی توسیع نفع بخش تجارت اور کاروبار سے بڑھا کر سماجی اور سیاسی آنٹرپرینیوشپ میں ہوئی ہے۔ آنٹرپرینیورشپ کی مروجہ تعریف کے مطابق قریب قریب ہر شخص آنٹرپرینیور ہے خواہ وہ ٹیچر ہو، وکیل ہو، ڈاکٹر ہو یا اور کچھ۔ تقریباً تمام روایتی کام اور کاروبار ،جوتے کی مرمت سے لے کر اخبار بیچنے تک ،آنٹر پرینیورشپ کی تعریف میں آتے ہیں۔ کسی بڑی تنظیم یا ادارے کے اندر آنٹرپرینیورشپ کو انٹراپرینیرشپ کہا جاتا ہے جو متعدد کارپوریٹس پر مشتمل ہو سکتا ہے جہاں بڑے ادارے چھوٹی تنظیموں کی تشکیل کرتے ہیں۔ آنٹرپرینیور وہ لیڈر ہوتے ہیں جو خطرے اٹھانے اور پہل کرنے کے متمنی ہوتے ہیں، بازار کے مواقع کو منصوبہ بندی، تنظیم اور وسائل کےساتھ استعمال کرتے ہیں اور بسا اوقات جدت کے ذریعے پہلے سے موجود مصنوعات میں بہتری لاتے ہیں۔ آنٹرپرینیورشپ کی اصطلاح کا استعمال حالیہ برسوں میں سوچنے کے انداز اور ذہنی سانچے (مائنڈ سیٹ) کے لیے بھی کیا گیاہےجس کے نتیجے میں اس کا اطلاق سماجی، سیاسی اور علمی حلقوں پر بھی کیا جاسکتا ہے۔
انسانی تہذیب و تاریخ کی آفرینش سے ہی انسان کے پہلے دو پیشے زراعت اور تجارت رہے ہیں۔ ان دونوں کی ترقی میں انسانی تہذیب و تمدن کی نشوونما اور کسی بھی ملک و ملت کی اقتصادی نمو مضمر ہے۔ بنگلہ دیش کے نوبیل انعام یافتہ دانشورمحمد یونس لکھتے ہیں : ’’جب ہماری بودوباش غاروں میں تھی تو اس وقت ہم سب سیلف ایمپلائیڈ تھے کہ ہمیں غذا کی تلاش میں جدوجہد کرنی پڑتی تھی۔ یہیں سے انسانی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔ جب تہذیب و تمدن نے ترقی کے زینے طے کیے تو ہم نے اس جبلت کو کچل دیا، ہم ’مزدور‘ بن گئے کیونکہ [ہم پر مسلط حاکموں] نے ہمیں کہا کہ ‘تم مزدور ہو۔’ ہم بھول بیٹھے کہ ہم آنٹرپرینیور ہیں۔‘‘
آنٹرپرینیورشپ ان عوامل میں سے ایک ہے جو کسی فرد بلکہ ملک کی معاشی صورت حال کو تبدیل کرسکتی ہے۔ اس کے ذریعے بہت سے افراد برسر روزگار ہو سکتے ہیں اوربہت سے افراد کو روزگار مہیا کیا جا سکتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اسلام میں بیع مبرور ، کاروبار، تجارت یا آنٹرپرینیورشپ پر بہت زور دیا گیا ہے ۔
آنٹرپرینیورشپ اور اسلامی اصولوں کےاجتماع کی عمارت تین ستونوںپر قائم ہے: اول مواقع کی جستجو، دوئم اجتماعی و اخلاقی اقدار اور سوئم دینی و روحانی اصولوں مشتمل ہے جو لوگوں کو ان کے رب اور اس کی خوشنودی کے حصول کے اعلیٰ مقصد سے جوڑتا ہے۔ یہ اساطین باہم مربوط ہیں، ایسا نہیں ہے کہ محض دوسرے اور تیسرے ستون کا اضافہ کردیا گیا ہو۔ تینوں اساطین ایک دوسرے کو باہم دگرسہارا دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ان اساطین کا سرچشمہ قرآن و سنت ہے۔ اسلامی آنٹرپرینیورشپ کے اپنے اصول، اقدار اور تجاویز ہیں۔ اس کی تفہیم و تحلیل کےاپنے طریق ہائے کار ہیں جو انفرادی و اجتماعی حقوق و فرائض اور اخلاقیات سے مربوط ہیں۔
جب فرانسیسی نژاد رچرڈ کینٹلن (متوفی ۱۷۵۵) نے پہلی بار معاشی تھیوری میں آنٹرپرینیور کی اصطلاح متعارف کرائی تھی تو اس کے مطابق آنٹرپرینیور وہ ماہر تھا جو خطرہ مول لینے میں طاق ہوتا تھا۔ ملازم کی اجرت یقینی ہوتی ہے تاہم آنٹرپرینیور کو کاروبار ی سرگرمی کے خاتمے پر نفع یا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ گویا نقصان کا خطرہ بہرحال رہتا ہے۔ اس رسک کا تصور اسلامی کسب رزق کے تصور سے ملتا جلتا ہے۔ ایک مسلمان کے نزدیک رزق دینے والا اللہ ہے، لہٰذا آنٹرپرینیور اللہ پر توکل رکھتا ہے۔ اس معنی میں، کاروبار میں خسارے کا خطرہ من جانب اللہ ہے لہٰذا خطرہ مول لینا سہل ہو جاتا ہے۔ سود کی حرمت کے سبب یہ خطرہ اٹھانا ناگزیر بھی ہے۔ اسلام میں دولت سے ازخوددولت پیدا کرنا ممنوع ہے۔ سرمائے کو خطرہ سے مربوط کرنا ضروری ہے اور یوں سرمایہ کار خود بھی آنٹرپرینیور بن جاتا ہے اور دیگر آنٹرپرینیورز کی کاروباری مساعی میں سرمایہ کاری کرکے ان کی بھی مدد کرتا ہے۔
قرآن حکیم میں اللہ کا رشاد ہے: ’’پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل (رزق) تلاش کرو۔ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے۔‘‘  (سورة الجمعہ: ۱۰) ایک دوسری جگہ کسب معاش میں سفر کرنے والوں کو جہاد کرنے والوں کے ساتھ رکھا گیا ہے: ’’اور کچھ دوسرے لوگ اللہ تعالی کے فضل (رزق)کی تلاش ميں سفرکريں گے اور کچھ لوگ اللہ تعالی کی راہ ميں جہاد بھی کريں گے۔‘‘ (سورة المزمل: ۲) ’’وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے ، چلو اُس کی چھاتی پر اور کھاوٴ خدا کا رزق، اُسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔‘‘ (سورة الملک: ۱۵)
اللہ کے رسول ﷺسے دریافت کیا گیا کہ کون سی کمائی پاکيزہ تر ہے تو آپ نے فرمايا: ’’عمل الرجل بيدہ وکل بيع مبرور اپنے ہاتھ کی کمائی اور ہر وہ سچی تجارت جس ميں دھوکہ اور فريب نہ ہو ۔ ‘‘ (احمد) ایک حدیث میں ہے: ’’سچا، امانت دار تاجر(قیامت میں) انبیاء، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہو گا۔‘‘  (ترمذی، کتاب البیوع) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: کہ سچ بولنے والا تاجر قیامت میں عرش کے سایہ میں ہو گا۔ (کنز العمال) ایک اور حدیث میں ہے:  ’’بہترین کمائی اُن تاجروں کی ہے، جو جھوٹ نہیں بولتے، امانت میں خیانت نہیں کرتے، وعدہ خلافی نہیں کرتے اور خریدتے وقت چیز کی مذمت نہیں کرتے (تا کہ بیچنے والا قیمت کم کر کے دے دے) اور جب (خود) بیچتے ہیں، تو (بہت زیادہ) تعریف نہیں کرتے (تا کہ زیادہ ملے) اور اگر ان کے ذمہ کسی کا کچھ نکلتا ہو تو ٹال مٹول نہیں کرتے اور اگر خود ان کا کسی کے ذمہ نکلتا ہوتو وصول کرنے میں تنگ نہیں کرتے۔‘‘ مناوی فرماتے ہیں: ’’رزق کے نو حصے تجارت میں ہیں اور ایک حصہ جانوروں کی پرورش میں ہے۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہیں تاجروں کے ساتھ خیر کے برتاوٴ کی وصیت کرتا ہوں، کیوں کہ یہ لوگ ڈاکیے اور زمین میں اللہ کے امین ہیں۔ ایک حدیث میں اپنے اہل و عیال اور ماتحتوں کےلئے بقدر ضرورت، حلال و جائز ذریعہ سے مال کمانے کو آخرت میں سرخ روئی اور کامیابی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :’’جو رزق حلال کمائی سے حاصل کرے تاکہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچے، اہل و عیال کیلئے مشقت اٹھائے، پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی چاہے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاندکی مانند چمک رہا ہوگا۔‘‘  (بیہقی)
اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ حلال کمائی کیلئے دوڑ دھوپ کرنا اور تھک کر چور ہوجانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت پسندیدہ اعمال ہیں اور یہ محنت و مشقت اللہ تعالیٰ کی مغفرت و بخشش کے ضامن ہیں۔آپ ﷺنے ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا :’’جو بندہ شام کو اپنے ہاتھ کی کمائی سے تھک کر چور ہوگیا تو اس کی مغفرت و بخشش ہوجاتی ہے۔ ‘‘ (کنز العمال) کسب حلال کی کوشش بعض گناہوں کی معافی و تلافی کا ذریعہ ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا :  ’’بعض گناہ ایسے ہیں جن کا کفارہ صرف رزق حاصل کرنے میں سعی و کوشش کرنا ہی ہے‘‘ ۔ (طبرانی)
حضرت عمرفاروق ؓ بھی بڑے تاجر تھے آپ کا تجارتی کاروبار اس قدر پھيلا ہوا تھا کہ دوسرے ملکوں ميں اس کی نکاسی ہوتی تھی ۔ آپ کاہی قول ہے: “راہ خدا ميں جہاد کے بعد اگر کسی حالت ميں جان دينا مجھے سب سے زيادہ محبوب ہے تو وہ يہ ہے کہ ميں اللہ تعالیٰ کا فضل (بذریعہ تجارت) تلاش کرتے ہوئے کسی پہاڑی درے سے گذر رہا ہوں اور وہاں مجھ کو موت آجائے۔” (بیہقی)
تجارت کی اہميت کے پيش نظر اللہ کے رسول ﷺنے مدينہ ميں باضابطہ ايک بازار قائم کیا تھا جس کی نگرانی کے لئے آپؐ مستقل وہاں جايا کرتے تھے۔ اس سلسلے ميں علامہ يوسف قرضاوی اپنی کتاب’ اسلام میں حلال و حرام ‘ میں لکھتے ہيں: ’’تجارت کے معاملہ ميں ہماری رہنمائی کے لئے نبی اکرم ﷺکا يہ اسوہ کافی ہے کہ آپؐ نے جہاں روحانی پہلو کو پوری اہميت کے ساتھ ملحوظ رکھا چنانچہ مدينہ ميں تقوی کی اساس پر مسجد قائم کی تاکہ وہ عبادت ،علم ،دعوت، اور حکومت سب کا مرکز بنے ۔ وہاں آپ نے اقتصادی پہلو کا بھی پورا پورا لحاظ فرمايا چنانچہ خالص اسلامی بازار قائم کرکے يہوديوں کے تسلط کو ختم کيا ، آپ نے خود اس کا نظام مرتب کيا، اس کی نگرانی فرماتے رہے اور ساتھ ہی اس سے متعلق ہدايات اور تعليمات جاری فرماتے رہے ۔ اس بازار کی خصوصيت يہ تھی کہ وہ فريب ،ناپ تول ميں کمی، ذخيرہ اندوزی اور دوسروں کو زک پہنچانے والی باتوں سے بالکل پاک تھا‘‘ (اسلام ميں حلال وحرام ، ص ۱۸۵)
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ بھی بڑے تاجرتھے ۔ ہجرت کے موقع سے جب ان کے مواخاتی بھائی سعد بن ربيع ؓ نے ان سے کہا کہ ميں اپنے مال کا آدھا حصہ آپ کو ديتا ہوں اس ميں آپ جيسے چاہيں تصرف کريں۔ تو حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓنے ان سے کہا : اللہ تمہارے مال ميں برکت دے مجھے تو بازار کا راستہ بتادو۔ چنانچہ انہوں نے بازار ميں سودا بيچنا شروع کيا يہاں تک کہ کچھ ہی عرصے ميں اتنا فائدہ ہوا کہ دوسروں سے بے نياز ہوگئے۔ ايک وقت وہ بھی آيا کہ کہتے تھے جب ميں مٹی کو بھی چھوتا ہوں تو وہ ہمارے لئے سونا بن جاتی ہے ۔ اسی طرح حضرت طلحہ ؓ بھی تجارت کيا کرتے تھے ، آپ نے تجارت کے ساتھ ساتھ زراعت کا پيشہ بھی اختيار کر رکھا تھا ۔حضرت زبير ؓکا ذريعہ معاش تجارت ہی تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اونٹوں کی خريد وفروخت کا کار وبار کرتے تھے ۔
اسلام کے نزدیک صرف وہی معاشی سرگرمی مستحسن ہے جس میں معاشرے کے لیے خیر اور افادیت کا پہلو ہو۔ زر جائز معاشی لین دین کا ایک واسطہ تو ہے لیکن زر کا لین دین بذاتہ مجرد جنس،جس میں اس کا تعلق کسی حقیقی جنس سے نہ ہو، شریعت میں جائز نہیں۔ علاوہ ازیں شریعت کی رو سے حد سے زیادہ خطرے، بے یقینی اور قیاس آرائی (سٹے بازی) پر مبنی سرگرمیاں بھی ممنوع ہیں۔ اسی طرح سود  اور سود پر مبنی ہر لین دین اور سرگرمی ممنوع ہے۔ سود کی ممانعت کی وجہ سے مغرب میں آنٹر پرینیورشپ کی فنانسنگ کا ایک مقبول عام طریقہ قرض فنانسنگ (debt financing) مسلم آنٹرپرینیور کے نزدیک ناقابل عمل ہے۔ اس کے بجائے مسلم معیشتوں میں مضاربہ اور مشارکہ کے متبادل موجود ہیں جو دراصل نفع و خسارہ میں شرکت کے معاہدے ہوتے ہیں۔اجمالاً، ان معاہدات کے تحت آنٹرپرینیور اسلامی فنانشیل ادارے سے قرض لیتا ہے اور سود کی بجائے وہ مالی ادارہ آنٹرپرینیورسے ایک طے شدہ منافع (یا خسارے) میں حصہ دار ہوتا ہے۔ مضاربہ میں تمام رأس المال فنانشیل ادارہ فراہم کرتا ہے اور آنٹرپرینیوراپنا ہنر اور محنت لگاتا ہے۔ مشارکہ اس سے ملتا جلتا نظام ہے جس کے تحت کچھ سرمایہ کاری آنٹرپرینیور بھی کرتا ہے۔
اسلامی و مغربی نظریہ اقتصاد میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مغربی آنٹرپرینیور کے لیے کامیابی محض ذاتی مالی منفعت کا نام ہے اور اس کے نتیجے میں اگر کچھ فائدہ معاشرے کو پہنچتا ہے تو اس کی حیثیت ثانوی ہے۔ مغربی آنٹر پرینیور کے لیے بزنس اور مذہب دو الگ الگ چیزیں ہیں جبکہ اسلام کے نزدیک تمام لین دین اور معاشی جدودجہد مذہبی نصب العین کے دائرے میں ہونا لازمی ہے۔ وسائل ارضی اور دولت کا حقیقی مالک اللہ ہے اور انسان محض اس کا خلیفہ ہے جو اللہ کی رضا کے لیے دولت اور وسائل کا استعمال انفرادی و اجتماعی فلاح کے لیے کرتا ہے۔ اسلام میں کامیابی کا تصور محض کاروبار کے ذریعے منافع کی اصطلاح میں نہیں ناپا جاتا بلکہ یہ بھی دیکھاجاتا ہے کہ مقاصد شریعت کی تکمیل کس حد تک ہوئی ہے،جس سے فرد کی آخرت کی کامیابی بھی جڑی ہوئی ہے۔
حاصل کلام، اسلام میں تجارت اور آنٹرپرینیورشپ کے اصول وہی ہیں جو انفرادی و اجتماعی زندگی کے اصول ہیں۔ ایمان، تقویٰ، صداقت و دیانت، کسب حلال کی جدوجہد ، اسراف اور ضیاع سے اجتناب ، اخلاقی ضوابط کا لحاظ، اجتماعی فلاح اور ماحولیات کے تئیں حساسیت وہ روشن اصول ہیں جن دنیوی و اخروی کامرانی مضمر ہے۔ 
(راقم کا یہ مضمون ماہنامہ رفیق منزل، شمارہ فروری ۲۰۱۶ میں شائع ہوا۔)

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے