قاتل بھی وہی اور نگہباں بھی وہی ہے

منگل, جون 21, 2016 عرفان وحید 0 Comments


ہر چند کہ انصاف کا خواہاں بھی وہی ہے
قاتل بھی وہی اور نگہباں بھی وہی ہے


بربادیٔ گلشن کا جو سامان بنا تھا
بربادیٔ گلشن پہ پشیماں بھی وہی ہے

ہے نسبتِ نومیدیٔ تاریکیٔ شب جو
اک مژدۂ امیدِفروزاں بھی وہی ہے

پانی میں تلاطم بھی اسی چاند کے باعث
اور اپنی ادا دیکھ کے حیراں بھی وہی ہے

تطہیرِ سیاست کا بھی دعویٰ ہے اُسی کو
تنقیدِ حکومت سے گریزاں بھی وہی ہے

مشکل ہے مفر وحشتِ تنہائی سے عرفان
جو قریہ ہے آباد، بیاباں بھی وہی ہے

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے