جنوں کی جلوہ سامانی بہت ہے
خرد کی گرچہ ارزانی بہت ہے
جنوں کی جلوہ سامانی بہت ہے
اِدھر دشواریاں ہیں کچھ دنوں سے
اُدھر سنتے ہیں آسانی بہت ہے
یہ کیسا جشن آزادی ہے بھائی؟
فضائے ملک زندانی بہت ہے
یہ ساری رونقیں بس نام کو ہیں
مرے شہروں میں ویرانی بہت ہے
خموشی میں بھی اک رنج گراں ہے
اگر بولوں پشیمانی بہت ہے
مجھے کافی ہے سنگِ ظلم اس کا
اسے شغلِ ستم رانی بہت ہے
0 comments:
تبصرہ کیجیے