قدم رواں ہیں رہِ پُرخطر کے ہوتے ہوئے

جمعرات, جولائی 13, 2017 عرفان وحید 0 Comments


ہزار وحشتِ تیر و تَبَر کے ہوتے ہوئے
قدم رواں ہیں رہِ پُرخطر کے ہوتے ہوئے


عجیب رنجِ سفر ہے حضر کے ہوتے ہوئے
یہ کیسی خانہ بدوشی ہے گھر کے ہوتے ہوئے

وہ حبس ہے کہ برسنے سے بھی جو کم نہ ہوا
عجب گھٹن ہے مری چشمِ تر کے ہوتے ہوئے

مرے وجود کو پیکر کی ہے تلاش ابھی
میں خاک ہوں ہنرِ کوزہ گر کے ہوتے ہوئے

سحر اجالنے والے، کرن کرن کے لیے
ترس رہے ہیں فروغِ سحر کے ہوتے ہوئے

ہر انکشاف ہے اک انکشافِ لاعلمی
کمال بے خبری ہے خبر کے ہوتے ہوئے

روش روش کڑے پہرے لگے ہیں سائے پر
میں دھوپ دھوپ چلا ہوں شجر کے ہوتے ہوئے

ہوا ہے گھات میں گرچہ سوادِ ساحل پر
سفینے پھر بھی رواں ہیں بھنور کے ہوتے ہوئے

عجب نہیں کہ وضاحت سے بات بڑھ جائے
خرد کی بزم میں اہلِ نظر کے ہوتے ہوئے

جو بیٹھا شاخِ قناعت پہ آ کے طائرِ شوق
دوبارہ اڑ نہ سکا بال و پر کے ہوتے ہوئے

میں ان سے مل کے کروں عرضِ حال کچھ عرفانؔ!
محال ہے یہ دلِ حیلہ گر کے ہوتے ہوئے

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے