سفر درونِ ذات بے قیام کیوں نہیں رہا

بدھ, نومبر 15, 2017 عرفان وحید 0 Comments



مسافتوں کا پھر وہ اہتمام کیوں نہیں رہا
سفر درونِ ذات بے قیام کیوں نہیں رہا


وہ شوقِ آسمان زیرِ دام کیوں نہیں رہا
یہ دانۂ ہوس تمھیں حرام کیوں نہیں رہا

بکھر گئی ہے شب تو تیرگی کا راج کیوں نہیں
جو بام پر تھا وہ مہِ تمام کیوں نہیں رہا

ہمارے قتل پر اصولِ قتل گہ کا کچھ لحاظ
صلیب و دار کا بھی اہتمام کیوں نہیں رہا

بھلا یہ کیسے مان لیں کہ دل کو صاف کرلیا
جو صلح ہو گئی تو پھر کلام کیوں نہیں رہا

جو شعبدے تھے تیرے پیرِوقت اُن کا کیا ہوا
عطائے حسن و عشق پر دوام کیوں نہیں رہا

جو پیروۓ ہواۓ نفس و بندۂ ہوس ہوا
اسے یہ غم وہ وقت کا امام کیوں نہیں رہا

دلوں کو جیتنے کی جو کرامتیں تھیں کیا ہوئیں
نظر نظر جو فیض تھا وہ عام کیوں نہیں رہا

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے