کہیں سحر تو نہیں ہے غبار میں اب بھی
چھپا ہے نظم کوئی انتشار میں اب بھی
کہیں سحر تو نہیں ہے غبار میں اب بھی
زمانہ ہوگیا اک عہد اُس نے باندھا تھا
گزر رہی ہے اسی اعتبار میں اب بھی
نہیں رہا ہے وہ پہلے سا ذوقِ حسنِ حیات
"وہی کشش ہے مگر حسنِ یار میں اب بھی"
اگرچہ عرصہء ہجراں تو کٹ چکا کب کا
مگر یہ دل ہے ترے انتظار میں اب بھی
یقیں کے رینگتے لمحات جھلملاتے ہیں
سرابِ گردشِ لیل و نہار میں اب بھی
سنا ہے حشر پہ عرفان ٹل گیا بدلہ
نہ جانے خَلق ہے کیوں انتظار میں اب بھی
0 comments:
تبصرہ کیجیے