کہیں سحر تو نہیں ہے غبار میں اب بھی

ہفتہ, نومبر 04, 2017 عرفان وحید 0 Comments


چھپا ہے نظم کوئی انتشار میں اب بھی
کہیں سحر تو نہیں ہے غبار میں اب بھی


زمانہ ہوگیا اک عہد اُس نے باندھا تھا
گزر رہی ہے اسی اعتبار میں اب بھی

نہیں رہا ہے وہ پہلے سا ذوقِ حسنِ حیات
"وہی کشش ہے مگر حسنِ یار میں اب بھی"

اگرچہ عرصہء ہجراں تو کٹ چکا کب کا
مگر یہ دل ہے ترے انتظار میں اب بھی

یقیں کے رینگتے لمحات جھلملاتے ہیں
سرابِ گردشِ لیل و نہار میں اب بھی

سنا ہے حشر پہ عرفان ٹل گیا بدلہ
نہ جانے خَلق ہے کیوں انتظار  میں اب بھی

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے