غزل - ہم ضبطِ غم کے سانچے میں ڈھالے ہوئے تو ہیں
ہم ضبطِ غم کے سانچے میں ڈھالے ہوئے تو ہیں
مژگاں پہ اپنے اشک سنبھالے ہوئے تو ہیں
آلامِ روزگار بھی ہر چند کم نہیں
لیکن خیالِ یار کو ٹالے ہوئے تو ہیں
شاید نشانِ منزلِ مقصود مل گیا
اس کے گواہ پاؤں کے چھالے ہوئے تو ہیں
یہ بات الگ کہ دل سے اندھیرے نہ جا سکے
علم و ہنر سے ہر سو اجالے ہوئے تو ہیں
اب ٹھوکروں پہ رکھ لے جو دنیا تو غم نہیں
دستاروسر تمہارے حوالے ہوئے تو ہیں
عرفاں امید نخلِ تمنا ہو اب ہرا
اب کی بہار زخمِ دل آلے ہوئے تو ہیں
۲۰۰۲
0 comments:
تبصرہ کیجیے