غزل - اشک ہی میرے لیے مایۂ اظہار بنے
اشک ہی میرے لیے مایۂ اظہار بنے
غم جو تھے تیری عطا وہ مرے غم خوار بنے
رنج و غم، کرب و بلا، آہ و فغاں، وحشت درد
اک تری یاد کے سب صورت ِ اظہار بنے
روشنی کے لیے گھر جس نے جلایا اپنا
کیوں وہی شب کی سیاہی کا سزاوار بنے
سر بلندی ہے جفاکاروں کے حصے میں رہی
ہر زمانے میں وفا کیش گنہ گار بنے
یوں ہوئی حرمتِ فن عہد ِ رواں میں صاحب
"جن کو فن کار نہ بننا تھا وہ فن کار بنے"
دین ِ حق ہو گیا گم خانقہی میں یارب
تیرے بندے ترے بندوں کے پرستار بنے
تھے جو حق گو لبِ بیباک سلے وہ عرفان
جن میں سودا تھا وہ سر زینت ِ تلوار بنے
۲۰۰۰
0 comments:
تبصرہ کیجیے