غزل - پرانۂ اربابِ جفا اور ہی کچھ ہے
دیوانۂ زنداں کی خطا اور ہی کچھ ہے
پروانۂ اربابِ جفا اور ہی کچھ ہے
افتاد جو اس دل پہ پڑی کس کوسناؤں
حق میں مرے یاروں کی دعا اور ہی کچھ ہے
اے مسلمِ خوابیدہ اٹھ اب خوابِ گراں سے
کھول آنکھ ذرا دیکھ فضا اور ہی کچھ ہے
کیوں باقی نہیں قافلۂ شوق میں ہلچل؟
کیا معنی و مفہوم درا اور ہی کچھ ہے
نانی سے وہ پریوں کی کہانی نہیں سنتے
بچوں کا یہاں ذوقِ رسا اور ہی کچھ ہے
ہے سنگِ ستم گار نہ سر اہلِ وفا کے
اس شہر میں اب رسمِ وفا اور ہی کچھ ہے
درماں نہیں اس شوق کا عیسی نفسی بھی
اس درد کی عرفان دوا اور ہی کچھ ہے
2002
0 comments:
تبصرہ کیجیے