غزل - کچھ تو ہو
رنج و الم ہو، خوف ہو، وحشت ہو، کچھ تو ہو
شہر ِ ستم کی کوئی علامت ہو کچھ تو ہو
تکمیل ِ آرزو ہو کہ حسرت ہو کچھ تو ہو
راحت میں درد، درد میں راحت ہو کچھ تو ہو
مدت سے شہرِدل میں خموشی غضب کی ہے
ہنگامہ کوئی ہو، کوئی آفت ہو کچھ تو ہو
گر دوستی نہیں نہ سہی شمنی سہی
یاروں کی ہم پہ کوئی عنایت ہو کچھ تو ہو
ظالم کا ہاتھ روک دے ایسا کوئی نظام
مظلوم کی حمایت و نصرت ہو کچھ تو ہو
حاصل ہو دوستی کو عداوت کا حوصلہ
یا دشمنی ہی وجہِ محبت ہو ہو کچھ تو ہو
عرفاں حصارِ ذات میں گم ہو گیا جہاں
اہلِ جہاں پہ شرحِ حقیقت ہو کچھ تو ہو
2001
0 comments:
تبصرہ کیجیے