غزل - یوں تو شمار اس کا مرے بھائیوں میں تھا
میں تھا لہو لہو وہ تماشائیوں میں تھا
چہرے سے میں نے غم کی لکیریں مٹا تو دیں
لیکن جو کرب روح کی گہرائیوں میں تھا
ہائے اسی کے کے واسطے مقتل سجا دیے
مصروف وہ جو انجمن آرائیوں میں تھا
وہ حوصلہ کہ پھیردے دو جو آندھیوں کے رخ
وہ حوصلہ ابھی مری پسپائیوں میں تھا
پر کٹ چکے تھے اور قفس کی فصیل تھی
لیکن مرا دماغ ابھی اونچائیوں میں تھا
دیتا ہے روز اک نیا الزام آج کل
پہلے وہ شخص بھی مرے شیدائیوں میں تھا
کہتے ہیں ایک میں نہ تھا بدنام شہر میں
چرچا ترے بھی نام کا رسوائیوں میں تھا
عرفاں وہ کم نصیب کہ تھا جانِ انجمن
یاروں کے بیچ رہ کے بھی تنہائیوں میں تھا
۲۰۰۲، یہ غزل ماہنامہ پیش رفت نے شائع کی۔
0 comments:
تبصرہ کیجیے