غزل - یوں تو شمار اس کا مرے بھائیوں میں تھا

بدھ, ستمبر 05, 2012 عرفان وحید 0 Comments


یوں تو شمار اس کا مرے بھائیوں میں تھا
میں تھا لہو لہو وہ تماشائیوں میں تھا


چہرے سے میں نے غم کی لکیریں مٹا تو دیں
لیکن جو کرب روح کی گہرائیوں میں تھا


ہائے اسی کے کے واسطے مقتل سجا دیے
مصروف وہ جو انجمن آرائیوں میں تھا


وہ حوصلہ کہ پھیردے دو جو آندھیوں کے رخ
وہ حوصلہ ابھی مری پسپائیوں میں تھا


پر کٹ چکے تھے اور قفس کی فصیل تھی
لیکن مرا دماغ ابھی اونچائیوں میں تھا


دیتا ہے روز اک نیا الزام آج کل
پہلے وہ شخص بھی مرے شیدائیوں میں تھا


کہتے ہیں ایک میں نہ تھا بدنام شہر میں
چرچا ترے بھی نام کا رسوائیوں میں تھا


عرفاں وہ کم نصیب کہ تھا جانِ انجمن
یاروں کے بیچ رہ کے بھی تنہائیوں میں تھا


۲۰۰۲، یہ غزل ماہنامہ پیش رفت نے شائع کی۔

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے