ستم گر کو پشیمانی بہت ہے

منگل, اگست 15, 2017 عرفان وحید 0 Comments



سرِ آئینہ حیرانی بہت ہے
ستم گر کو پشیمانی بہت ہے


خرد کی گرچہ ارزانی بہت ہے
جنوں کی جلوہ سامانی بہت ہے

سبھی وحشی یہیں پر آرہے ہیں
مرے گھر میں بیابانی بہت ہے

یہاں ہر چند سب خوش پیرہن ہیں
مگر دیکھو تو عریانی بہت ہے

نہ جانے کب مری مٹھی میں آئے
وہ اک لمحہ کہ ارزانی بہت ہے

عجب الجھن کہ چپ رہنا بھی مشکل
جو کہہ دوں تو پشیمانی بہت ہے

میں سمتِ دشت جانا چاہتا تھا
مگر اس میں تن آسانی بہت ہے

بھلا کر بیٹھتا ہوں ہر کسی کا
ابھی مجھ میں یہ نادانی بہت ہے

خدایا جوڑ کیا ہے عشق و دل کا؟
تری بخشش پہ حیرانی بہت ہے

زمیں کو راس کب آئے گا عرفاں
وہ حرفِ حق کہ نقصانی بہت ہے

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے