یہ وقت معرضِ کرب و بلا میں ٹھہرا ہے

جمعرات, ستمبر 21, 2017 عرفان وحید 0 Comments


ہنوز عرصہ ٔ جور و جفا میں ٹھہرا ہے
یہ وقت معرضِ کرب و بلا میں ٹھہرا ہے


ہے اذنِ عام چلا جائے جس کو جانا ہے
دِیا خموشی سے شب کی رِدا میں ٹھہرا ہے

ابھی تو پیاس ہرائے گی اور دریا کو
ابھی تو معرکہ بابِ وفا میں ٹھہرا ہے

یہ کون نوکِ سناں سے ہوا ہے آج طلوع
کہ لمحہ شب کا فروغِ ضیا میں ٹھہرا ہے

بدن تو کب کا مدینے کو لوٹ آیا تھا
مگر یہ دل کہ ابھی کربلا میں ٹھہرا ہے

یزیدِ وقت سے بیعت ہیں وقت کے کوفی
یہ معرکہ ابھی شہرِ ریا میں ٹھہرا ہے

نجات ہے تو شہِ دین کے اصولوں میں
علاجِ دوراں غمِ لادوا میں ٹھہرا ہے

سکون نالہ و آہ و بکا میں ہے مُضمِر
قرار گِریۂ خونیں ادا میں ٹھہرا ہے

سلام اُن پہ کہ عرفان اعتبارِوفا
انھیں کی پیروئ نقشِ پا میں ٹھہرا  ہے


10 محرم، 1438ھ، 21 ستمبر، 2017۔

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے