ہرا بھرا تھا شجر بے لباس کیسا ہے
چمن میں آج یہ منظر اداس کیسا ہے
ہرا بھرا تھا شجر بے لباس کیسا ہے
فضا میں زہر ہے ایسا کہ سانس الجھتی ہے
یہ شہر دشت نژادوں کو راس کیسا ہے
پٹختا پھرتا ہے رہ رہ کے سر کو ساحل سے
ڈبو کے کشتی، بھنور بدحواس کیسا ہے
دیے ہیں جس نے زمانے کو بار بار فریب
وہ شخص اب بھی زمانے کو راس کیسا ہے
خبر جو دیتا تھا اچھے دنوں کی روز ہمیں
کہو، وہ اپنا ستارہ شناس کیسا ہے
تمہاری یاد کی خوشبو بھی اب جلو میں نہیں
شبِ فراق کا یہ اقتباس کیسا ہے
یہ چیختے ہوئے آسیب کیا ہیں بستی میں
یہ سایہ کوئی مرے آس پاس کیسا ہے
طلسمِ بود و نبود آشکار ہو تو سہی
کہ وہمِ ہستی قرینِ قیاس کیسا ہے!
جو پیاس بجھ نہیں پائی کسی بھی پیاسے کی
ہنر ترا مرے دریا شناس کیسا ہے
جو اس کا دعوی ہے عرفاں کو جانتا ہی نہیں
تو میرے ذکر پہ وہ بدحواس کیسا ہے
0 comments:
تبصرہ کیجیے