ہرا بھرا تھا شجر بے لباس کیسا ہے

بدھ, اکتوبر 18, 2017 عرفان وحید 0 Comments


چمن میں آج یہ منظر اداس کیسا ہے
ہرا بھرا تھا شجر بے لباس کیسا ہے



فضا میں زہر ہے ایسا کہ سانس الجھتی ہے
یہ شہر دشت نژادوں کو راس کیسا ہے

پٹختا پھرتا ہے رہ رہ کے سر کو ساحل سے
ڈبو کے کشتی، بھنور بدحواس کیسا ہے

دیے ہیں جس نے زمانے کو بار بار فریب
وہ شخص اب بھی زمانے کو راس کیسا ہے

خبر جو دیتا تھا اچھے دنوں کی روز ہمیں
کہو، وہ اپنا ستارہ شناس کیسا ہے

تمہاری یاد کی خوشبو بھی اب جلو میں نہیں
شبِ فراق کا یہ اقتباس کیسا ہے

یہ چیختے ہوئے آسیب کیا ہیں بستی میں
یہ سایہ کوئی مرے آس پاس کیسا ہے

طلسمِ بود و نبود آشکار ہو تو سہی
کہ وہمِ ہستی قرینِ قیاس کیسا ہے!

جو پیاس بجھ نہیں پائی کسی بھی پیاسے کی
ہنر ترا مرے دریا شناس کیسا ہے

جو اس کا دعوی ہے عرفاں کو جانتا ہی نہیں
تو میرے ذکر پہ وہ بدحواس کیسا ہے

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے