غزل - بکھرے ہوئے جو تنکے مرے آشیاں کے ہیں
بکھرے ہوئے جو تنکے مرے آشیاں کے ہیں
احسان مجھ یہ بھی کسی مہرباں کے ہیں
اے پھول رنگ و بو کا تجھے ہے گماں بہت
ہم خار ہی سہی پر اسی گلستاں کے ہیں
صحرائے زندگی میں نہیں دھوپ سے نجات
سائے بھی ہیں تو موت ہی کے سائباں کے ہیں
اے دوست فکر تجھ کو ہماری ہے کس لیے
دشمن ہم اپنے دل کے ہیں خود اپنی جاں کے ہیں
عرفاں خبر نہیں ہے کسی بات کی ہمیں
ہم پر زمیں کے ہیں کہ ستم آسماں کے ہیں
مالیر کوٹلہ ،جنوری 1994
This is my first Ghazal. I was then thirteen year old and studying in eighth standard.
0 comments:
تبصرہ کیجیے