غزل - بکھرے ہوئے جو تنکے مرے آشیاں کے ہیں

ہفتہ, مارچ 01, 2003 عرفان وحید 0 Comments

بکھرے ہوئے جو تنکے مرے آشیاں کے ہیں
احسان مجھ یہ بھی کسی مہرباں کے ہیں

اے پھول رنگ و بو کا تجھے ہے گماں بہت
ہم خار ہی سہی پر اسی گلستاں کے ہیں

صحرائے زندگی میں نہیں دھوپ سے نجات
سائے بھی ہیں تو موت ہی کے سائباں کے ہیں

اے دوست فکر تجھ کو ہماری ہے کس لیے
دشمن ہم اپنے دل کے ہیں خود اپنی جاں کے ہیں

عرفاں خبر نہیں ہے کسی بات کی ہمیں
ہم پر زمیں کے ہیں کہ ستم آسماں کے ہیں

مالیر کوٹلہ ،جنوری 1994



This is my first Ghazal. I was then thirteen year old and studying in eighth standard.
جنوری 1994

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے