منزل کی ہے تلاش مگر رہ گزر کہاں - غزل
منزل کی ہے تلاش مگر رہ گزر کہاں
ہو جس پہ چل کے سب کا بھلا وہ ڈگر کہاں
کس کس کو میں دکھاؤں نشاناتِ بیکسی
مجھ سا ہے لخت لخت کسی کا جگر کہاں
منزل بھی میری دور سفر بھی طویل ہے
رہبر کہ ہم سفر ہو کوئی تو مگر کہاں
ہر سمت زندگی میں ہیں بے اعتباریاں
چہروں کے اس جہاں میں کوئی معتبر کہاں
ہے یہ غلط کہ ان سے وفا کی امید ہے
اپنوں سے بڑھ کے اور ہیں بیداد گر کہاں
مالیر کوٹلہ ،اگست ۱۹۹۵
0 comments:
تبصرہ کیجیے