منزل کی ہے تلاش مگر رہ گزر کہاں - غزل

ہفتہ, مارچ 08, 2003 عرفان وحید 0 Comments

منزل کی ہے تلاش مگر رہ گزر کہاں
ہو جس پہ چل کے سب کا بھلا وہ ڈگر کہاں

کس کس کو میں دکھاؤں نشاناتِ بیکسی
مجھ سا ہے لخت لخت کسی کا جگر کہاں

منزل بھی میری دور سفر بھی طویل ہے
رہبر کہ ہم سفر ہو کوئی تو مگر کہاں

ہر سمت زندگی میں ہیں بے اعتباریاں
چہروں کے اس جہاں میں کوئی معتبر کہاں

ہے یہ غلط کہ ان سے وفا کی امید ہے
اپنوں سے بڑھ کے اور ہیں بیداد گر کہاں

مالیر کوٹلہ ،اگست ۱۹۹۵

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے