جو دوست دشمنوں کو بھی بناسکے کوئی تو ہو - غزل

ہفتہ, مارچ 08, 2003 عرفان وحید 0 Comments

جو دوست دشمنوں کو بھی بناسکے کوئی تو ہو
قریب اپنے غیر کو جو لا سکے کوئی تو ہو

کسی بھی ہنستے کو رلانا تو جہاں کی ریت ہے
مگر جو غم زدوں کو بھی ہنسا سکے کوئی تو ہو

میں اپنے لڑکھڑاتے پاوں خود ہی چوم چوم لوں
مگر جو لغزشوں پہ مسکراسکے کوئی تو ہو

برس رہی ہے آگ جبر وظلم کی ہر اک طرف
جو ابر بن کے اس فضا میں چھا سکے کوئی تو ہو

جھکا ہوا ہے بادِ تند سے ہر اک شجر
مگر جو اس ہوا کو بھی جھکاسکے کوئی تو ہو

ہوا ہرایک برگ خشک کو اڑائے شوق سے
ہوا سے لیکن آنکھ جو ملا سکے کوئی تو ہو

ہے کون جس کو زندگی نہیں ہے پیاری دوستو
گلے جو ہنس کے موت کو لگاسکے کوئی تو ہو

ہے زندگی جو اک ادا تو موت بھی ہے اک ادا
حیات و موت کے جو گر بتا سکے کوئی تو ہو

مالیر کوٹلہ ،جولائی ۱۹۹۵


یہ میری اولین غزل ہے جس پر استاد مرحوم جناب خالد کفایت نے اصلاح دی۔

شاید آپ کو یہ بھی پسند آئیں

0 comments:

تبصرہ کیجیے