جو دوست دشمنوں کو بھی بناسکے کوئی تو ہو - غزل
جو دوست دشمنوں کو بھی بناسکے کوئی تو ہو
قریب اپنے غیر کو جو لا سکے کوئی تو ہو
کسی بھی ہنستے کو رلانا تو جہاں کی ریت ہے
مگر جو غم زدوں کو بھی ہنسا سکے کوئی تو ہو
میں اپنے لڑکھڑاتے پاوں خود ہی چوم چوم لوں
مگر جو لغزشوں پہ مسکراسکے کوئی تو ہو
برس رہی ہے آگ جبر وظلم کی ہر اک طرف
جو ابر بن کے اس فضا میں چھا سکے کوئی تو ہو
جھکا ہوا ہے بادِ تند سے ہر اک شجر
مگر جو اس ہوا کو بھی جھکاسکے کوئی تو ہو
ہوا ہرایک برگ خشک کو اڑائے شوق سے
ہوا سے لیکن آنکھ جو ملا سکے کوئی تو ہو
ہے کون جس کو زندگی نہیں ہے پیاری دوستو
گلے جو ہنس کے موت کو لگاسکے کوئی تو ہو
ہے زندگی جو اک ادا تو موت بھی ہے اک ادا
حیات و موت کے جو گر بتا سکے کوئی تو ہو
مالیر کوٹلہ ،جولائی ۱۹۹۵
یہ میری اولین غزل ہے جس پر استاد مرحوم جناب خالد کفایت نے اصلاح دی۔
0 comments:
تبصرہ کیجیے